نیک عمل وہ ہے جو


نیک عمل وہ ہے جو لوگوں کی تعریف
کی توقع سے بے نیاز ہو کر کیا جائے

عمل صالح”سے مراد ہر وہ عمل ہے جو تزکیۂ اخلاق کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ۔ اس کی تمام اساسات عقل و فطرت میں ثابت ہیں اور خدا کی شریعت اسی عمل کی طرف انسان کی رہنمائی کے لیے نازل ہوئی ہے ۔”

خدا کا کوئی کام بے مقصد اور بغیر کسی حکمت کے نہیں ہوتا۔ وہ ‘الحکیم’ ہے۔ اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے اور حکمت بھی اس درجے اور اس شان کی جو درجہ اور شان خود اس ذات بے ہمتا کو حاصل ہے۔ کسی دانش مند انسان کے بارے میں بھی یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ عبث اور بے حکمت کام کرنے والا ہے، پس اللہ رب العزت کے بارے میں یہ خیال کیونکر دل میں لایا جا سکتا ہے۔اس نے یہ کائنات بے مقصد نہیں بنائی، بلکہ اسے ایک خاص حکمت اور خاص نظام پر استوار کیا ہے۔ چنانچہ انسان کے وہ اعمال جو خدا کی حکمت اور اس کے نظام کے مطابق ہوں، وہی اعمال صالحہ ہیں۔

نیک عمل وہ ہے جو لوگوں کی تعریف

عمل صالح کا لفظ ہی بتاتا ہے کہ اس سے مراد درست عمل ہے۔ خدا کی اس دنیا میں درست عمل صرف وہی ہو سکتا ہے، جو خدا کے بنائے ہوئے پروگرام اور اس کی حکمت کے مطابق ہو۔ اس کے برعکس وہ عمل جو اس کی حکمت اور ا س کے نظام کے خلاف ہو، وہ کسی صورت میں بھی درست عمل نہیں کہلا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات جس حکمت پر بنائی ہے، وہی حکمت اس نے انسان کی فطرت اور اس دین میں بھی ملحوظ رکھی ہے، جو اس نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے نازل کیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ ہی انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ قابل ترجیح چیز ہونے چاہییں۔

نیک اعمال انسان کی زندگی میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ انسان درحقیقت ایک اخلاقی وجود ہے۔ یہ دراصل، وہ صالح رویہ ہے، جو ہم دوسروں سے اپنے لیے چاہتے اور دوسرے ہم سے اپنے لیے چاہتے ہیں۔اور سب سے بڑھ کریہ اعمال اللہ تعالیٰ کی خاطر کر یں یہی صالح رویہ ماحول اور معاشرے کے حوالے سے ہمارا نیک عمل ہے۔ چنانچہ اگر انسان اپنی زندگی میں نیک عمل اختیار کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اصلاً، اس کا اپنا اخلاقی وجود نشو و نما پاتا ہے۔ یہ صرف انسان کی اخلاقی نشو و نما ہی کا معاملہ نہیں، اس کے روحانی پہلو کو دیکھیے یا سماجی اور معاشرتی پہلو کو، ہر اعتبار سے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں صالح اعمال ہی اختیار کرے۔ یہی اعمال اس کی روح کو بالیدگی عطا کرتے ہیں اور انھی کی بنا پر وہ حیوانی سطح سے بلند ہو کر ملکوتی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ یہی اسے سماجی اور معاشرتی پہلو سے ترقی دے کر ایک متمدن اور مہذب انسان بناتے ہیں۔

Naik Aml Wo Hay Jo Logon Ki Tareef
Ki Twaqqo Say Bay Nyaaz Ho Ker Kia Jaye


اپنا تبصرہ بھیجیں