بڑی منزلوں کے مسافر
چھوٹا دل نہیں کرتے
بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹا دل نہیں رکھتے۔یہ الفاظ ان لوگوں کے لیے ہیں جن کا زندگی میں کچھ کر گزرنے کا مقصد ہوتا ہے اور ان کے مقاصد بہت خاص ہوتے ہیں۔انسان جتنی بڑی کامیابی کی طرف جاتا ہے اسے اتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے وہ قیمت سٹریس ہے۔ قیمت ادا کیے بغیر کامیابی نہیں ملتی لو گ تھوڑی سی قیمت ادا کر کے بڑی کامیابی کی تمنا کرتے ہیں ۔
عظمت کے سفر میں کٹھن حالات تو آئیں گے ۔ انسان کا المیہ ہے کہ وہ جب بھی عظمت کی طرف جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ کام پر فوکس کرتا ہے ۔جب بندہ پوری یکسوئی کے ساتھ ایک کام کو شروع کرتا ہے تو پھر قدرت بھی انعام کے طور پر اسے منزل عطا کر دیتی ہے ۔ مثال کے طور پر قائد اعظم محمدعلی جناحؒ نے پاکستان بنایا اگر آپؒ پاکستان کے بنانے کے ساتھ اور کام بھی کررہے ہوتے تو یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ کسی ایک منزل پر پہنچ پاتےجس طر ح پاکستان بننے کا عمل تھا بلکل اسی طرح جناح سے قائداعظمؒ بننے کا عمل تھا ۔فوکس کا مطلب ہےکہ تن، من ،دھن لگا دینا، اپنی بے شمار خواہشات کو ذبح کر دینا اور ذبح کر نے کے بعد فقط ایک چیز کو پکانا۔ اگر ہم ہمت ہارنے لگیں تو کبھی بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں گے۔
عزم و ہمت بھی ضروری ہے جس کے ساتھ یقین کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ ضروری ہے۔ راستہ مثبت یا منفی، غلط یا صحیح۔ یہاں بھی مسئلہ غور و فکر کا ہے۔ اگر راستہ اور منزل دونوں کے رخ مخالف ہیں تو راستے پر چلنے والا اپنی صحیح منزل تک کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اسی لیے راستے کا انتخاب انتہائی اخلاص کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اور اب آ گئے مسافر۔ کیا مسافر راہ چلتے ہوئے پرخلوص ہیں۔ خلوص پہلی شرط ہے۔ مسافر آتے جائیں گے اور قافلے بنتے جائیں گے۔ بقول حضرتِ آتشؔؔ: ’’سفر ہے شرط مسافر نواز بُہتیرے۔‘‘
زمانہ ہمیشہ وقت کے دانشور سے تھوڑا سا پیچھے ہوتا ہے اس لیے عظمت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عظمت بغیر قیمت کے نہیں ملتی اور جو بغیر قیمت کے ہوتی ہے وہ عظمت نہیں ہوتی وہ دکھاوا ہو سکتا ہے۔
سقراط کے سامنے جب زہر کا پیالہ رکھا گیا تو وہ مسکرانے لگا اور کہا کہ یہ مجھے مار دیں گے لیکن میرے افکار کو نہیں مار سکتے۔