جسے رب کی ناراضگی کی پرواہ ہو
وہ لوگوں کی ناراضگی سے بے پرواہ ہو جاتا ہے
جسے رب کی ناراضگی کی پرواہ ہووہ لوگوں کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کرتا کیونکہ اسکا ایمان بہت مضبوط ہو جاتا ہے وہ اس بات اور سوچ پہ قائم ہو جاتا ہے کہ اسکے لیے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کافی ہے وہ ہر اس کام سے بچتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کی وجہ بنے اور حق بات پہ ڈٹ جاتا ہے لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا وہ اپنے ہر کام میں اللہ کی مدد مانگتا ہے اورحکمت گردانتا ہے اللہ کی رضا میں راضی رہتا ہے دراصل یہ تمام باتیں انسان کو اس امر کی دعوت دیتی ہیں کہ ایسی کریم ذات، حقیقی خالق و مالک سے اغراض نہ کرو، اغیار کی محبت اور دنیا کی طلب میں محو و غرق مت رہو بلکہ پاکیزہ دل کے ساتھ اچھے کلمات ، خالص دعائوں اور سچی پکار کے ساتھ اپنے عظیم رب کی نعمتوں کا شکر بجا لاتے رہو۔ عبادت و محبت صرف اﷲ جل جلال کا حق ہے۔
یہ اﷲ رب العزت کی شان بے مثال ہے کہ مصیبتوں میں آنکھیں اپنے کریم رب کی طرف لگی ہوتی ہیں اور قلب و روح سکون پاتے ہیں۔ احساسات اور اعصاب ٹھنڈے پڑجاتے ہیں۔ عقل لوٹ آتی ہے اور یقین ہوجاتا ہے کہ ’’اﷲ پاک اپنے بندوں سے رحم و کرم کا معاملہ ہی فرماتے ہیں۔‘‘ جب ہم یا اﷲ! کہہ کر پکارتے ہیں تو ذہن میں غنا، بقا، قوت، نفرت، عزت، حکمت اور خیروکرم کا سراپا گھوم جاتا ہے ۔
جب کچھ لوگوں نے نبی کریم ﷺاور آپﷺکے راستے سے بے اعتنائی اختیار کی تو حق تعالیٰ نے درج ذیل آیت مبارکہ نازل فرمائی:
فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ [التوبہ:129]
سواگر یہ لوگ پھر جائیں اور نہ مانیں تو کہہ دو کہ اللہ مجھے کفایت کرتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس پر میرا بھروسہ ہے اور وہی عرشِ عظیم کا مالک ہے۔
حسبنا اللہ ونعم الوکیل
اللہ ہمارے لیے کافی ہے
تمام امور میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کے کام پر راضی رہنا ،اس سے اچھا گمان رکھنا، مصیبت ٹلنے کا انتطار کرنا ، یہ سب چیزیں ایمان کا بہترین پھل ہیں اور ایمانی صفات میں سے ہے . جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے فر مایا حسبنا اللہ ونعم الوکیل تو اللہ تعالیٰ نے آگ کو گلزار بنا دیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ کو جب قریش مکہ نے دھمکی دی تو انہوں نے کہا حسبنا اللہ ونعم الوکیل تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد ونصرت کے ساتھ انہیں کا میاب فر مایا .اکیلا انسان کچھ نہیں کر سکتا اور مصیبت کا سامنا بھی اکیلے نہیں کر سکتا .کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ضعیف پیدا کیا ہے ،وہ اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت کے بغیر مصائب ومشکلات کا سامنا نہیں کر سکتا .اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور سب کاموں کو اسی کے سپرد کر نے کے سوا کو ئی چارہ نہیں ، کیونکہ بندہ ضعیف ہے .اس کے لئے قرآن کریم میں ایل ایمان کو اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل کا حکم دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر نجات اور مشکلات سے چھٹکارہ ممکن نہیں .