نفرت سے آج تک
کوئی کسی کو نہیں بدل سکا
کہتے ہیں کہ انسان فطری طور پر انسان دوست، امن پسند، محبت کرنے اور محبت چاہنے والا ہے جبکہ “ یہی انسان جذبہ نفرت اپنے ارد گرد کے ماحول سے کشید کرتا ہے“ بجا ارشاد ہے کہ “کسی بھی انسان کی فطرت نفرت کی طرف مائل نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ منفی رجحان یا جذبہ ، جذبہ محبت کی طرح ایک فطری جذبہ ہے بلکہ یہ جذبہ یا منفی رجحان دیگر ناگوار و ناپسندیدہ رویوں کے ردعمل کے طور پر پیدا ہونے والا منفی رجحان ہے“
کسی بھی انسان کے دل میں نفرت کا محرک بہت سی معاشرتی ناہمواریاں ہیں جو کسی نہ کسی غم و غصہ، ظلم و ناانصافی ذلت و تحقیر، غیر مساویانہ رویوں، یا پھر محرومیوں کے رد عمل کے نتیجے کے طور پر دلوں میں پنپتی ہے۔
جب کوئی محبت کا متلاشی محبت سے محروم رہ جائے یا پھر دیگر معاشرتی ناانصافیوں کا شکار ہو جائے تو اس کے دل میں رفتہ رفتہ محبت کی آرزو کی جگہ نفرت جڑ پکڑنے لگتی ہے جو آہستہ آہستہ نفرت و عداوت کے ایسی بھیانک آگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے جو کہ خود نفرت کا شکار ہونے والوں کے ساتھ ساتھ اس نفرت کا باعث بننے والوں کے علاوہ بہت سی معصوم جانوں کو بھی اپنی خوفناک لپیٹ میں لے کر بھسم کر دیتی ہے۔ دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں اور انسان کو قدرت کی طرف سے وہ قوت عطا کی گئی ہے کہ وہ چاہے تو اس کائنات کو رضائے الٰہی سے تسخیر بھی کر سکتا ہے۔
اسی طرح نفرت کی بھڑکتی پنپتی دہکتی سلگتی آگ کو ٹھنڈا کرنا بھی خود انسان ہی کے ہاتھ میں ہے اس کے لئے انسان کو اپنے فطری جذبہ محبت کو جذبہ نفرت پر حاوی کرنے کے لئے اپنے اندر سے ہر قسم کے منفی رویوں کو ختم کرنا ہوگا اور مثبت رجحانات پر اپنی طبیعت کو مائل کرنا ہو گا کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی محبت کی طاقت سے نفرت کی آگ پر غالب نہ آسکے اس آگ پر قابو نہ پا سکے۔
اس کے لیے ہمیں درگزر کی عادت کو اپنانا ہوگا دوسروں کی دانستہ اور نادانستہ طور پر سرزد ہوجانے والی کوتاہیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے دوسروں کو معاف کردینے کا ظرف پیدا کرنا ہوگا، اگر آپ یہ سب کرسکتے ہیں اور یقیناً کسی بھی انسان کے لئے یہ سب کر گزرنا مشکل یا ناممکن نہیں ہے۔