تجھے موسیقی تو رلاتی ہے
مگر قرآن نہیں رلاتا- – –
قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے ۔ دین کی ابتدا اس کتاب سے نہیں ، بلکہ ان بنیادی حقائق سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے روز اول سے انسان کی فطرت میں ودیعت کر رکھے ہیں ۔ اس کے بعد وہ شرعی احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیا کی سنت کی حیثیت سے جاری ہوئے اور بالآخر سنت ابراہیمی کے عنوان سے بالکل متعین ہو گئے ۔ پھر تورات ، زبور اور انجیل کی صورت میں آسمانی کتابیں ہیں جن میں ضرورت کے لحاظ سے شریعت اور حکمت کے مختلف پہلووں کو نمایاں کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے اور قرآن مجید نازل ہوا ہے ۔ چنانچہ قرآن دین کی پہلی نہیں ، بلکہ آخری کتاب ہے اور دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق ، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں ۔ ۱ یہی وجہ ہے کہ قرآن بالعموم ان مسلمات کی تفصیل نہیں کرتا جو دین فطرت کے حقائق کی حیثیت سے انسانی فطرت میں ثبت ہیں یا سنت ابراہیمی کی روایت کے طور پر معلوم و معروف ہیں ۔
دین فطرت کے حقائق کو قرآن معروف و منکر سے تعبیر کرتا ہے ۔ معروف سے مراد وہ چیزیں ہیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے مسلم ہیں اور منکر سے مراد وہ چیزیں ہیں جنھیں وہ برا سمجھتی ہے ۔ معروف و منکر کا یہی شعور ہے جس کی بنا پر ہر شخص بآسانی اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکتا اور اعمال کے اخلاقی اور غیر اخلاقی پہلووں کو الگ الگ پہچان سکتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید معروف و منکر کی کوئی متعین فہرست پیش نہیں کرتا ، بلکہ چند ناگزیر معاملات میں متعین ہدایات دیتا ہے اور بیش تر معاملات میں محض اصولی رہنمائی تک محدود رہتا ہے ۔
چارالفاظ بندےکو ہالاکت میں ڈال دیتےہیں میں،ہم،میرا ، اورمیرے پاس