لوگ کعبہ گئے، مگر دل سے برائی نہ گئی


کتنا دشوار ہے فطرت کا بدلنا یوسف
لوگ کعبہ گئے، مگر دل سے برائی نہ گئی

فطرت لفظ فطر سے وجود میں آیا ہے، جس کے معانی ہیں ‘اندر سے پھوٹنا’ .. اسی نسبت سے فطر کے ایک معنی بناء کسی بیرونی مثل کے ابتدا ہونے کے بھی ہیں. اللہ رب العزت کا ایک صفاتی نام فاطر ہے ( فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ) یعنی وہ جو کائنات کو بناء کسی سابقہ مثل کے وجود میں لے آیا. فطرت دراصل انسان کے وہ مجموعی اوصاف، صفات اور داعیات ہیں جو انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہیں اور جن کی موجودگی آپ کے وجدان میں موجود ہے. یہ وہ داخلی احساسات، جذبات و محرکات ہیں جو اس کی شخصیت میں بنانے والے نے پیدائشی طور پر مضمر کر رکھے ہیں. لہٰذا جب خارج سے کوئی ایسی بات، خیال یا فلسفہ پیش کیا جائے

فطرت ایک ایسی چیز ہے جسے بدلنا ناممکن سا لگتا ہے, جب اس فطرت میں دو چہرے مل جائیں تو وہ فطرت اور بھی بری لگنے لگتی ہے, وہ دو چہرے موسموں کے مزاج سے بخوبی واقف ہوتے ہیں,سمجھتیں ہیں موسم کس چہرے کے لیے موزوں ہے اور کس کے لیے مضر, یہ دو چہرے ایک ہی انسان کے ہوتے ہیں,ایسے چہروں کو منافقت کے القابات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور منافقت بہت ہی بری شےہے- بندہ اپنے دشمن سے محفوظ رہ سکتا ہے دوست کے قریب ہو سکتا ہے لیکن یہ منافقت کا نقاب ایسا نقاب ہے جسے پہنے ہوئے انسان کو نہ دوست تصور کیا جا سکتا ہے نہ دشمن- اللہ نے فرمایا-

فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ سورة الروم -30 :30
سو تو سیدھا رکھ اپنا منہ دین پر ایک طرف کا ہو کر – وہی تراش اللہ کی جس پر تراشا لوگوں کو بدلنا نہیں اللہ کے بنائے کو یہی ہے دین سیدھا و لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے

اسلام کا دعویٰ ہے کہ وہ دین فطرت ہے ، یعنی اس کا پیش کردہ مقدمہ اور عقائد انسانی فطرت سے پوری طرح منسلک ہیں. اور “ہر بچہ فطرت (یعنی اسلام) پر پیدا ہوتا ہے تو اسکے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں”



نام بدل لینے سے فطرت نہیں بدلتی ،آگ خوبصورت آتشدان میں ہو یا الاؤ میں۔جلانا اس کی فطرت ہے ۔ٹھیک یہی مثال انسانی فطرت کی بھی ہے وہ اسکے خلاف نہیں جا سکتا انکے دل کبھی صاف نہیں ہوتے –

قانونِ فطرت

ہم اس دنیا میں آگئے ہیں اور اپنی فطرت کو نہیں بدل سکتے، تو اب کچھ نہیں کر سکتے، ہم تو ہیں ہی ایسے ! اسی لیے اللہ نے ایک اور دروازہ کھولا اور وہ ہے وسیلے اور دُعا کا دروازہ! کہ بندہ کہے کہ یا اللہ! تُو نے میری فطرت اور جبلت میں تو غصہ ڈال دیا کہ میرے باپ کا نام اشرف اور ماں کا نام تسنیم ہے اور دونوں ساری عمر آپس میں لڑتے رہے ہیں اور یہی غصہ میرے اندر بھی در آیا ہے، تو اے اللہ! میرے اندر تھوڑا ٹھہراؤ دے، مجھے غصے پر قابو دے، تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ذریعے سے بخاری و مسلم کی یہ حدیث آپ کے سامنے لے آئے کہ

ایک بار حضرت ابو ہریرہؓ لَاحَوْلَ وَلَا قُوۃ اِلَّا بِاللّٰہ پڑھ رہے تھے تو اللہ کے رسول ﷺ نے سن کر فرمایا کہ یہ ضرور پڑھا کرو کہ اس سے ننا نوے بیماریاں دور ہوتی ہیں اور جو سب سے کمزور بیماری ہے وہ غم ہے۔

Kitna Dushwar Hy Fitrat Ka Badalna Yusaf
Log Ka,bba Gaye, Or Dil Say Burai Na Gai


2 تبصرے “لوگ کعبہ گئے، مگر دل سے برائی نہ گئی

Leave a Reply to لون مجید Cancel reply