مائیں تو بس جزائیں ہوتی ہیں
رب کی انمول عطائیں ہوتی ہیں
پیاری ماں تیری دید چاہیے
تیرے آنچل سے ٹھنڈی ہوا چاہیے
لوری گا گا کے مجھ کو سلاتی ہے تو
مسکرا کر سویرے جگاتی ہے تو
مجھ کو اس کے سوا اور کیا چاہیے
تیری ممتا کے سائے میں پھولوں پھلوں
تمام عمر تیری انگلی پکڑ کر بڑھتا چلوں
تیری خدمت سے دنیا میں عظمت میری
زمین پر خدا کی محبت کا چلتا پھرتا روپ ماں ہوتی ہے – ماں کی عظمت اور بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ خداوندکریم نے جنت جیسا اعلٰی انعام ماں کے قدموں تلے رکھ دیا گیا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنی، اپنے بندے سے محبت کے لیے ماں کی محبت کا ذکر کیا کہ وہ اپنے بندے سے ماں کی نسبت ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہے۔ ماں کی عظمت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالی سے پوچھاکہ جنت میں میرے ساتھ کون ہو گا؟ارشاد ہوا فلاں قصاب ہو گا۔آپ کچھ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے۔وہاں دیکھاتوایک قصاب اپنا کاروبار ختم کر کے اس نے گوشت کا ایک ٹکڑا کپڑے میں لپیٹااور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔حضرت موسی علیہ السلام نے اس قصائی کے پیچھے چل پڑے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاہی۔گھر پہنچ کر قصائی نے گوشت کو پکایاپھر روٹی کے ٹکڑے شوربے میں نرم کئے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا جہاں ایک نہایت کمزور بڑھیا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔ قصاب نے بمشکل اسے سہارا دے کر اٹھایااور ایک لقمہ اس کے منہ میں دیتا رہا۔کھانا کھانے کے بعد اس نے بڑھیا کا منہ صاف کیا۔ بڑھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر قصاب مسکرایا اور بڑھیا کو لٹا کر باہر آگیا۔حضرت موسی علیہ السلام جو یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔آپ نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے؟ اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا ؟ جس پر تو مسکرادیا؟ قصاب بولا ! یہ عورت میری ماں ہے۔گھر پر آنے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں یہ روز خو ش ہو کر مجھے دعا دیتی ہیکہ اللہ تجھے جنت میں حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ رکھے گا جس پر میں مسکرا دیتا ہوں کہ بھلا میں کہاں اور موسی کلیم اللہ کہاں!