کچھ نیکیاں صرف آپکے اور رب کے درمیان ہونی چاہئیں


جیسے آپ کے کچھ گناہ
صرف آپکے اور رب کے درمیان ہیں
ایسے ہی کچھ نیکیاں بھی ہونی چاہئیں

اپنی نیکی چھپانا آپ کی سوچ کا امتحان ہے، نیکی وہ ہوتی ہے جو آپکے اور آپکے اللہ کے درمیان رہے- ﭘﺮﺍﻧﮯ ﻟﻮﮒ ﺩﺭﯾﺎؤﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﮑﯽ ﮈﺍﻝ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ لیکن ﮨﻤﺎﺭﮮ سیلفی ﺩﻭﺭ ﮐﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﺮﮐﮯ چینخ چینخ کر دوسروں کو بتا کر فخر محسوس کرتا ہے کہ دیکھو میں نے نیکی کی ہے۔ لوگوں کو اپنی نیکی دکھانے کےلئے سیلفی نے ہمارا کام مزید آسان کر دیا ہے۔

آج ایسے ہی اخبار پر نظر پڑی۔ یہ ایک دس سالہ بچی کا خط تھا جو اس نے خیراتی اداروں کے نام لکھا تھا۔ خط کا عنوان کچھ یوں ہے

”انکل اپنا راشن اور کپڑے واپس لے جائیں“

“ ہم آپ کے دفتر کے پیچھے والی بستی میں رہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے آپ ہمارے غریب خانے تشریف لائے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ ہم غریب ہیں یا نہیں۔ تاکہ آپ ہماری مدد کرسکیں۔ کچھ دن بعد آپ پانچ لوگوں کے ہمراہ ہمارے گھر آئے۔ ہمیں راشن دیا۔ امی، میرے اور بھائی کےلئے عید کے جوڑے دیے تصاویر بنوائی اور چلے گئے۔ انکل آپ کو معلوم ہے کہ جب میں چار کی تھی تو میرے بابا اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بابا کےجانے کے بعد دادی نے امی کو مار کر گھر سے نکال دیا۔ ہم دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ کسی رشتہ دار نےہماری مدد نہیں کی۔ ہمارا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ امی لوگوں کے گھروں کے برتن صاف کرتیں جو پیسے ملتے اس سے ہم اپنا پیٹ بھرتے۔ امی کا تو امیر لوگوں کی گالیاں سن کر ہی بھر جاتا تھا جن کے گھروں میں وہ کام کرتی تھیں۔ امی میرے سامنے تو مسکراتی تھی لیکن اپنا غم ہلکا کرنے کےلئے رات کو چھپ کر روتی تھیں۔ کل امی پھر رورہی تھیں۔ وہ چپ ہی نہیں ہو رہی تھیں۔

جب آنکھوں سے آنسو خوش ہو گئے تو وہ سو گئیں۔ میں اٹھکر ان کے پاؤں دبانے لگی تاکہ کچھ آرام ہو جائے۔ پاؤں دباتےدباتے میری نظر امی کے ہاتھوں میں اخبار پر پڑی۔ اخبار میں میری بھائی اور امی کی آپ سے راشن اور کپڑے بطور امداد وصول کرنے والی تصویر تھی۔ میں سمجھ گئی امی کیوں رو رہی ہیں۔ پچھلے سال بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ان تصاویر کی وجہ سے محلے والوں نے ہمارا خوب مذاق اڑایا۔ جب ہم کپڑے پہن کر باہر کھیلنے گئے تو ہمیں بھکاری بھکاری کہہ کر تنگ کیا جا رہا تھا۔ انکل آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے نئے کپڑے اور جوتے واپس لے جائیں۔ امی کے آنسو مجھ سے برداشت نہیں ہوتے۔ ویسے بھی ہم غریبوں کی عید نہیں ہوتی۔ آپ سے ایک اوردرخواست ہے کہ کسی غریب کی مدد کیا کریں تو اس کی تصاویر اخبار میں نہ دیا کریں۔ اس کے بعد اسے جو تکلیف ہوتی ہے اد کا آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ اللہ نے آپ کو دولت دی ہے اس میں آپ کا کمال نہیں ہے اور اللہ نے ہمیں غریب بنایا اس میں ہمارا بھی قصور نہیں ہے۔ اللہ سب کو خوش رکھے۔
آمین“

یہ ﮐﯿﺎ ہو ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ؟ ﻣﺠﺒﻮﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﮐﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ، ﯾﺘﯿﻤﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﺍؤﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻨﮭﮯ ﻣﻨﮯ ﺍﺳﮑﻮﻟﯽ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﮐﻮﺳﻮشل ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ یہ نیکی نہیں بلکہ پبلیسٹی ہے، کیونکہ نیکی وہ ہے جو چھپ کے کی جاے اور بعد میں احسان بھی نا جتایا جائے-

نیکی کے بارے میں ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮ ﻣﺎیا ﮐﮧ:
ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺳﺎﺕ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﺼﯿﺐ ﻓﺮ ﻣﺎﺋﮯ ﮔﺎ ‏اور ان سات اشخاص میں ایکﻭﮦ ﺷﺨﺺ بھی ہو گا ﺟﻮ ﭼﮭﭙﺎ ﮐﺮ ﺻﺪﻗﮧ ﺩﮮ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ﻧﮧ ﭼﻠﮯ ﮐﮧ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﺧﺮﭺ ﮐﯿا۔

Jaise Aap Kay Kuch Gunnah
Sirf Aapkay Aur Aapkay Rab Kay Darmiyaan Hein
Aisy hi Aapki Kuch Naikiyaan Bhi Honi Chaheyain


اپنا تبصرہ بھیجیں