توبہ کا خیال خوش بختی کی علامت ہے
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ قریب ہے کہ تمھارا رب تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔(التحریم:8)۔ خالص توبہ، یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرے،گناہ کرناچھوڑ دے، آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم کرے،اور اپنے گناہوں پر نادم ہو،اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کسی کا کوئی حق چھینا ہے یاکسی کی حق تلفی کی ہے تو اس کو اس کا حق ادا کرے،اگرکسی پر ظلم کیااور ستایا ہے تو اس سے معافی طلب کرے۔
توبہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک کہ بندہ سکرات کے عالم میں نہ پھنچ جائے،اور جب تک کہ سو رج مغرب سے طلوع نہ ہو،،اور جان کنی کے وقت کی گئی توبہ قبول نہیں ہوگی، جیسا کہ مسند احمد میں ہے((ان اللہ یقبل توبۃ العبد ما لم یغرغر)) کہ اللہ تعالٰی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ اسے جان کنی کا وقت نہ آجائے، یعنی آخری سانس کے وقت کی گئی توبہ نا مقبول ہے۔
اے اللہ کے بندو! توبہ کرنے میں جلدی کرو،کیونکہ موت کا پتہ نہیں کہ کب وہ ہمیں آ دبوچ لے گی،حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کھا تھا” اے میرے بیٹے تو بہ کرنے میں دیری مت کرنا کیونکہ موت اچانک آئے گی۔
اللہ احکم الحاکمین کا فرمان ہے، ومن لم یتب فألئک ہم الظالمون
جو تو بہ نہیں کرتے وہی لوگ ظالم ہیں۔