تو شاہيں ہے – علامہ اقبال


نہيں تيرا نشيمن
قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہيں ہے،
بسيرا کر پہاڑوں کی چٹانوں ميں

علامہ اقبال

شاہین تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ

اقبالؒ کے شاہین کو ملت مسلمہ کے غیور انقلابی جوانوں سے تعبیر کرنا خالی از حقیقت نہ ہو گا۔ جوانی، غیرت و حمیت، جذبہ و شوق، تحرک و ہمت، قوت و حیات اور جدت و سرعت کا نام ہے۔ اقبالؒ کا شاہین بھی پاکی و پاکیزگی، بلندی و دلیری کی علامت ہے آج کا نوجوان اقبالؒ کا شاہین ہے کہ اسکے پاس مشامِ تیز بھی ہے، گفتارِ دلبرانہ بھی اور کردارِ قاہرانہ بھی۔ اقبالؒ کا ایمان یہی کہتا ہے کہ’’کم کوش ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی‘‘ اور وہ لوگ جن کو آہِ سحر بھی نصیب ہو، اور سوزِ جگر بھی، وہ زندگی کے میدان میں کبھی نہیں ہارتے۔ مومن جوان کی آزاد فطرت کو بیان کرنے کے لیے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کی گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کے چٹانوں پر

پہاڑوں کی چٹانیں بھی وسعت، بلندی اور مضبوطی کی اصطلاحات ہیں جو صرف اور صرف شاہین جیسے پرندے کے مزاج و فطرت کے ساتھ ہی مطابقت رکھتی ہیں۔ پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنا آزادی اور وسعت نظری کی علامت ہے جب کہ قصر سلطانی کے گنبد پر آشیانہ بنانا اور کار آشیاں بندی طمع، لالچ، ہوا ئے نفس اور غلامی پر دلالت کرتا ہے جبکہ آزادی انسان کی فطری صلاحیتوں کو تشکیل دیتی ہے اقبالؒ نے ظلم و ستم کے خلاف مبارزانہ روش اختیار کی اور شاہین کا بار بار ذکر کر کے جوان مومن کی انقلابی اور اعلٰی صفات و خصوصیات کی نشاندہی کی ہے ۔

تو شاہيں ہے

شاہین عظیم صفات کا حامل پرندہ ہے اور ہر موصوف اپنی صفات سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی فضا میں، اسی شکل و صورت کے اور بھی پرندے موجود ہیں لیکن وہ بلند صفات جو شاہین میں موجود ہیں اس کے تشخص کا موجب بنتی ہیں اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے اندر مثبت اور اعلٰی صفات پیدا کر لے تو وہ شخصیت کا روپ دھار لیتا ہے اور اگر منزل انسانیت سے گر جائے تو اسفل السافلین میں اس کا شمار ہو نے لگتا ہے۔ یہی مثبت اور منفی اقدار بلندی اور پستی کا تعین کرتی ہیں۔ جوانی زندگی کا ایک ایسامرحلہ ہے کہ جس میں انسان کے پاس قوت، قدرت اور نشاط موجود ہوتی ہے، جوانی طاقت اور اُمید کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ جوان کے اندر جذبہ و ارادہ ہوتا ہے، سب کچھ کر گزرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، بھرپور توانائیوں اور جرات کے ساتھ زندگی کی مشکلات کا سامنا کر رہا ہوتا ہے۔ اس عالم میں اگر اُس کے اندر ایمان کی قوت بھی آ جائے تو یہ اقبالؒ کا شاہین کمال کی راہ کا بہترین مسافر ثابت ہو سکتا ہے اور زندگی کے ہر مرحلے میں کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے ۔علامہ اقبالؒ جوانوں سے خطاب کر کے فرماتے ہیں۔ اپنے اندر عقابی روح بیدار کریں۔ جس طرح شاہین بلند پروازی کی بدولت آسمانوں کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے اسی طرح جوانوں میں جب یہ روح بیدار ہو جاتی ہے تو منزلیں آسمانوں پر دکھائی دیتی ہیں۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

Nahin Tera Nasheman
Qasar-e-Sultani Kay Gumbad Par
Tu Shaheen Hai
Basera Kar Paharoon Ki Chatanoon Par


اپنا تبصرہ بھیجیں