کئی خواب اور کئی خیال


دیواریں صرف کمروں کی نہیں ہوتیں
دل کے گرد بھی ہوتی ہیں

کئی خواب اور کئی خیال
انہی میں قید رہ جاتے ہیں

کئی خواب اور کئی خیال

کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے
شب و روز آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے

وہ نظر بہم نہ پہنچی کہ محیط حسن کرتے
تری دید کے وسیلے خد و خال تک نہ پہنچے

وہی چشمۂ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے

ترا لطف وجہ تسکیں نہ قرار شرح غم سے
کہ ہیں دل میں وہ گلے بھی جو ملال تک نہ پہنچے

کوئی یار جاں سے گزرا کوئی ہوش سے نہ گزرا
یہ ندیم یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے

چلو فیضؔ دل جلائیں کریں پھر سے عرض جاناں
وہ سخن جو لب تک آئے پہ سوال تک نہ پہنچے

فیض احمد فیض

Deewaren Sirf Kmron Ki Nahi Hoten
Dil Kay Gird Bhi Hoti Hen
Kai Khwab Aur Kai Khyal
Inhi Mein Qaid Reh Jatay Hen


کئی خواب اور کئی خیال” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں