عبادتیں نیتوں کی پابند ہوتی ہیں


عبادتیں جھکنے مشروط نہیں
بلکہ نیتوں کی پابند ہوتی ہیں

عبادتیں جھکنے مشروط نہیں

کامیابی کی اصل کلید اخلاص نیت ہے، تمام عبادات کی اصل روح بھی یہی اخلاص ہے۔ ایک بندۂ مومن کو اللہ کی رضا اوراس کی خوشنودی کی خاطر زندگی گزارنی چاہیے کامیاب مسلمان وہی ہے جو احکامات الٰہی کی پابندی کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو خود سے ڈرنے کا حکم دیا ہے.

عبادت کو اللہ کی قربت کی تلاش کے ارادہ کے ساتھ کیا جانا چاہئے

عبادت میں میانہ روی اور اس پر ہمیشگی کرنا۔

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل پسند ہے؟ فرمایا: “ ایسا عمل جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔”
صحیح بخاری

نیت کے معنی لغت میں قصد کرنے اور ارادہ کرنے کے ہیں ، مگر حقیقت اس کی قصد اور ارادہ کے سوا کچھ اور ہے ۔ یوں سمجھیے کہ نیت کی حقیقت یہ ہے کہ نیت ایک قلبی صفت اورکیفیت کا نام ہے، جو علم اور عمل کے درمیان میں ہے ۔ اس کو مثال سے سمجھیے کہ مثلاً پہلے تو انسان کو علم حاصل ہوتا ہے کہ فلاں کام میں نفع ہے یا نقصان ہے ، جیسے تجارت میں نفع ہونے کا کسی کو علم ہوا کہ اگر تجارت کی جائے تو نفع ہوتا ہے یا کھیتی کرنے سے غلہ پیدا ہوگا۔ یہ تو سب سے پہلا درجہ ہے، جو علم کا درجہ کہلاتا ہے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان عمل ترویج کر دے، جیسے تجارت کا مال خرید کر دکان میں لگا کر بیٹھ جائے یا کھیتی کرنے کے لیے ہل وغیرہ چلانا شروع کر دے ، یہ عمل کا درجہ ہے اوران دونوں کے درمیان جو چیز ہے وہ نیت ہے، جس سے عمل اورکام کرنے کی ایک آمادگی پیدا ہوئی، بس یہی نیت کا درجہ ہے

امام غزالی رح نے اس کی تعریف اورحقیقت کو دو لفظوں میں بیان فرمایا ہے ، فرماتے ہیں :” انبعاث القلب إلی مایراہ موافقا بغرضہ من جلب منفعة أو دفع مضرة، حالا أومآلا“ یعنی کسی کام کے لیے دل کاکھڑا ہو جانا اورآمادہ ہو جانا کہ جس کو دل اپنی غرض کے موافق پاتا ہو، خواہ وہ غرض جلب منفعت ہو یا دفع مضرت ہو ، عام ہے ، اس سے کہ وہ غرض فی الحال ہو یا فی المال ہو ۔ اسی لیے فرماتے ہیں کہ اعمال کا دار ومدار دل کے کھڑے ہو جانے پر ہے ۔ اگر دل خدا کے لیے کھڑا ہو گیا تو وہی حکم ہو گا اوراگر دنیا کے لیے کھڑا ہو گا تو وہی حکم ہو گا۔ غرض اعمال کی روح نیت ہے ، اگر نیت اچھی ہے تو عمل بھی مقبول ہے ورنہ مردود ، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اعمال کی تین قسمیں ہیں: قسم اول تو وہ اعمال ہیں جو طاعت کہلاتے ہیں ، مثلاً نماز ، روزہ، صدقہ، خیرات وغیرہ اور دوسری قسم وہ کہ جو مباحات کہلاتے ہیں ، یعنی جن کے نہ تو کرنے سے کوئی گناہ ہے اور نہ ان کو ترک کرنے سے کوئی گناہ، جیسے کپڑاپہننا ، کھانا کھانا، خوش بو لگانا وغیرہ اور تیسری قسم اعمال کی معاصی ہیں، یعنی وہ اعمال جن کے کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے اوران کے کرنے میں گناہ ہے۔

اخلاص نیت کی برکت
قرآن مجید اور احادیث میں جا بجا ترغیبات موجود ہیں کہ اعمال کی قبولیت کا دار ومدار نیت پر ہے اور نیت کے فضائل اور اس کا ثواب قرآن وحدیث میں اکثرجگہ موجود ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ایک جگہ خدا تعالیٰ نے فقرائے مسلمین کی بارے میں آیت نازل فرمائی جس کا شان نزول یہ ہے کہ مکہ کے سردار اور رؤسا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ ہم آپ کی بات اس شرط پر سننے کو تیار ہیں کہ جس وقت ہم لوگ آپ کی مجلس میں حاضرہوا کریں تو آپ ان غریب اور کم درجہ کے لوگوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیا کریں ، کیوں کہ ہمیں ان کے ہمراہ بیٹھنے میں سخت عار آتی ہے اور ہماری شان کے خلاف ہے کہ ہم اتنے بڑے بڑے لوگ ایسے کم درجہ کے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں۔ جب ان لوگوں نے آپ سے یہ درخواست کی تو آپ اس سلسلے میں متردد تھے، حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی ﴿لا تطرد الذین یدعون ربھم بالغداة والعشی یریدون وجھہ﴾ آپ ( اپنے پاس سے ) ان لوگوں کو الگ نہ کریں جو اپنے پرورد گار کو صبح شام پکارتے ہیں، جس سے ان کی غرض یہ ہے کہ وہ خالص خدا تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔

Ibadten Jhukne Sey Mshroot Nahi
Blkeh Niyyaton Ki Pabnd Hoti Hen


اپنا تبصرہ بھیجیں