اللہ پاک مجھ کو اپنے فضل وکرم اور رحمت سے بچا لے


یا اللہ پاک!

میں گناہوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہوں
مجھ کو اپنے فضل وکرم اور رحمت سے بچا لے

آمین

مجھ کو اپنے فضل وکرم اور رحمت سے بچا لے

مصیبت ،دکھ ،درد ،پریشانی ،بیماریوں کی تکا لیف ،مفلسی و تنگ دستی کی شدت میں رحمت خدا وندی سے مایوس ہو نے کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے امید رکھو۔خداکی رحمت سے مایوس ہونا مومنوں کا نہیں کافروں کا شیوہ ہے۔اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشا د فرما یا ’’اور ضرور ہم تمھیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں کی کمی سے اور خوشخبری سنائو ان صبر والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھر نا‘‘۔ (سورئہ بقرہ ،پارہ ۲)

اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہمیشہ پر امید رہیے اور یہ یقین رکھیے کہ گناہ خواہ کتنے ہی زیادہ ہوںاللہ تعالیٰ کی رحمت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ سمندر کے جھاگ سے زیادہ گناہ کرنے والا بھی جب اپنے گناہوں پر شرمسار ہو کر خدا کے حضور گڑگڑاتا ہے تو خدا اس کی سنتا ہے اور اس کو اپنے دامن رحمت میں پناہ دیتا ہے۔زندگی کے کسی حصے میں گناہوں پر شرمساری اور ندامت کا احساس پیدا ہو اسے خدا کی توفیق سمجھے اور توبہ کے دروازے کو کھلا سمجھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ’’اے میرے وہ بندو جو اپنی جانوں پر زیادتی کر بیٹھے ہو خدا کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہونایقیناً خدا تمہارے سارے کے سارے گناہ معاف فرما دے گا، وہ بہت ہی معاف کرنے والا اور بڑا ہی مہربان ہے اور تم اپنے رب کی طرف رجوع ہو جاؤ اور اس کی فرمانبرداری بجا لاؤ اس سے پہلے کہ تم پر کوئی عذاب آ پڑے اور پھر تم کہیں سے مدد نہ پا سکو‘‘۔ (سورۃ الزمر ۳۵/۴۵)

انسان کتنا بے وقوف ہے جب خدا تعالی نے سب کچھ واضح طور پر بیان کر دیا سب کچھ بتا دیا ، مگر پھر بھی اور اس بات کو تب سمجھتا ہے جب اپنے اسے نا امید کرتے ہیں۔ ماں باپ بہن بھائی سے بڑھ کر کوئی بھی اس دنیا میں اپنا نہیں ہوتا یہ رشتے باقی سب رشتوں سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ باقی تو خود غرض رشتے ہوتے ہیں۔مگرانسانوں کی ماں باپ اور باقی سب رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ ان سے تعلق اور ان سے وابستہ امیدیں بھی بڑھتی ہیں۔مگر جب امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں تو اس کے ساتھ ہی رشتے بھی دم توڑنے لگتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ اگر رشتوں کے ساتھ امیدیں لگانا چھوڑ دیں تو رشتے ٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں، لیکن انسان امیدیں لگانا کیسے چھوڑے؟ اللہ چاہتا ہے کہ صرف اسی سے امید لگائی جائے کیوں کہ انسان اتنا مکمل اور طاقت ور نہیں کہ اپنے ساتھ وابستہ تمام امیدوں کو پورا کر سکے۔

دنیوی رشتے بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں لیکن ایک رشتہ کبھی نہیں ٹوٹتا اور وہ اللہ اور انسان کا رشتہ ہے۔کتنی ہی نافرمانی کے بعد جب انسان اللہ کی طرف ایک قدم بھی آگے بڑھاتا ہے تو اللہ اس کی طرف دو قدم آگے بڑھاتا ہے۔ دنیوی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔انسان کا اللہ سے رشتہ نہیں ٹوٹتا۔ اس کی وجہ وہ یقین ہے جو انسان اللہ پر کرتا ہے۔ انسان جانتا ہے کہ اگر اللہ چاہے تو میری ہر تمنا اور دعا پوری کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت علی نے فرمایا کہ ’’ اللہ سے جو چاہو مانگو کیونکہ ممکن یا نا ممکن تو ہمارے نزدیک ہے اللہ کے نزدیک تو کچھ بھی ناممکن نہیں‘‘۔

اللہ پاک کی رحمت کا اندازہ اس حدیث پاک سے لگایا جا سکتا ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں ان میں سے ایک رحمت جنوں، آدمیوں، جانوروں اور کیڑوں میں۔ اسی ایک رحمت کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور رحم کرتے ہیں اور اسی رحمت کی وجہ سے جانوراپنے بچے سے محبت کرتا ہے اور ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھیں جو اپنے بندوں پر کرے گا قیامت کے دن‘‘۔

خدا اپنے بندے سے اتنی زیادہ محبت کرتا ہے کہ اگر انسان پوری زندگی گناہ کرتا رہے اس کے ہر حکم کو ماننے سے انکار کرتا رہے خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا رہے مگر ایک بار اگر وہ سچے دل سے خوف خدا کی وجہ سے توبہ کر لے تو میرا رب اسے کبھی بھی مایوس نہیں کرے گا۔ ایک انسان جب سچے دل سے اور پکے ارادے سے اپنے رب کی طرف ایک قدم بڑھتا ہے تو میرا رب اس کی طرف دس قدم بڑھاتا ہے۔ تو اے انسان! تجھے کس چیز نے خسارے میں ڈال رکھا ہے۔ کیوں تو اتنا اکڑ رہا ہے کس بات کا تجھے مان ہے۔ تو اپنا غرور چھوڑ اور ایک قدم عاجزی سے اس رب کی طرف بڑھا، میرا رب تجھے کبھی بھی مایوس نہیں کرے گا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ایک شخص نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، وہ جو مرنے لگا تو اپنے لوگوں سے بولا،مجھے جلا کر راکھ کر دینا، پھر آدھی راکھ جنگل میں اڑا دینا اور آدھی سمندر میں، کیوں کہ اللہ کی قسم! اگر اللہ مجھ کو پائے گا تو ایسا عذاب کرے گا کہ ویسا عذاب دنیا میں کسی کو نہیں کرنے کا۔ جب وہ شخص مر گیا اس کے لوگوں نے ایسا ہی کیا، اللہ تعالیٰ نے جنگل کو حکم دیا اس نے سب راکھ اکھٹی کر دی پھر سمندر کو حکم دیا اس نے بھی اکٹھی کر دی، پھر پروردگار نے اس شخص سے فرمایا، تو نے ایسا کیوں کیا؟ وہ بولا، تیرے ڈر سے اے پروردگار اور تو خوب جانتا ہے، پروردگار نے اس کو بخشش دیا‘‘۔ اے نادان انسان! میرے رب کے لیے کچھ بھی نا ممکن نہیں وہ سب کر سکتا ہے۔

خدا کی رحمت سے کبھی مایوس مت ہونا وہی ایک سچا اور واحد رشتہ ہے جو کبھی بھی نہیں چاہتا کہ تو خسارے میں رہے۔ ابھی بھی وقت ہے اپنی غلطیوں کو ٹھیک کر کے اس رب کے آگے سربسجود ہو کر اس کی رحمت طلب کر ، وہ کبھی بھی تمہیں مایوس نہیں کرے گا۔

Ya ALLAH PAK Main Gonahon K Samandar Man Doba Hua Hon
Mujhko Apne Fazal O Karam Aur Rehmat Se Bacha Le
Ameen


اپنا تبصرہ بھیجیں