جھک جانا ہی محبت ہے


جھک جانا ہی محبت ہے اور اس
بات کا سب سے بڑا ثبوت سجدہ ہے

سجدہ

سجدہ مسلمانوں کی عبادت کا وہ نشاط انگیز حصہ ہے جو پچھلی امتوں کو بھی دیا گیا۔ سجدے میں انسان کے سات اعضاء اس کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں: چہرہ، ہتھیلیاں، دو گھٹنے اور دو پاؤں۔سجدے سے انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اپنے خالق اور محسن کے قرب سے بڑھ کر انسان کو کیا چاہیے؟ جیسا کہ سورہ العلق میں فرمایا۔

“اور سجدہ کر اور (اللہ کے) قریب ہو جا۔”سجدہ کرنے والوں کو حضورﷺ کا ساتھ بھی نصیب ہوگا۔ایک دن آپﷺ نے اپنے ایک غلام ربیعہ بن کعب سے خوش ہو کر کہا “مجھ سے کچھ بھی مانگو” انہوں نے عاجزی سے کہا “میں آپ سے آپ کا ساتھ مانگتا ہوں۔” آپﷺ نے فرمایا “تو پھر تم اپنے سجدے زیادہ کرو! “اور سجدے کو زیادہ کرنے سے مراد صرف سجدوں کی تعداد ہی نہیں بلکہ سجدوں کی طوالت بھی ہے۔

قرآن میں کہیں مومنین کی صفات میں، کہیں فرشتوں کی صفات میں اور کہیں اولو العلم کی صفات میں سجدہ کرنا اور تکبر سے اجتناب کرنا لکھا ہے۔ ابلیس نے بھی اللہ تعالیٰ کا حکم نہ مانتے ہوئے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ اس انکار کی وجہ صرف اور صرف تکبر تھی۔ اس لیے قرآن میں متعدد مرتبہ جہاں سجدہ کرنے کا حکم ہے وہاں غرور و تکبر سے باز رہنے کا بھی حکم ہے۔

جیسا کہ سورہ السجدہ میں فرمایا:”ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔”سوچنے کی بات یہ ہے کہ ابلیس نے صرف ایک سجدے سے انکار کیا اور وہ اتنے بڑے رتبے سے گرا دیا گیا۔ تو کیا ہم اپنی نمازوں سے غفلت برت کر، اتنے سجدوں کو چھوڑ کر اللہ کی پکڑ سے آزاد ہیں؟

اس سوال کا جواب یہ آیت دیتی ہے:

“اللہ کی تدبیر سے وہی قوم بے خوف ہو سکتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔”

سورہ القلم میں فرمایا گیا:

“جس روز سخت وقت آن پڑے گا اور لوگوں کو سجدے کے لیے بلایا جائے گا تو کچھ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے۔ ان کی نگاہیں نیچی ہونگی، ان پر ذلت چھا رہی ہوگی (یہ وہ لوگ ہیں کہ جب یہ صحیح وسالم تھے تو اس وقت انہیں سجدے کے لیے بلایا جاتا تھا (تو وہ انکار کرتے تھے۔”اس کا مطلب ہے کہ قیامت کے روز ہر شخص جان لے گا کہ کون دنیا میں اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار رہا اور کون نہیں۔ عبادت گزار لوگ تو سجدہ ریز ہو جائیں گے اور جن لوگوں نے اللہ کی عبادت کرنے سے انکار کیا تھا ان کی کمر تختہ ہو جائے گی اور وہ چاہتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ نہ کر پائیں گے گے اور وہ ذلت و پشیمانی کے ساتھ کھڑے ہی رہیں گے۔کیا قیامت کے دن کی رسوائی سے بڑھ کر بھی کوئی رسوائی ہو سکتی ہے؟سجدہ مومنین کا ایک نشان امتیاز ہے۔

آپﷺ نے فرمایا:

“مومنین اپنے ماتھے پر سجدے کے نشان سے پہچانے جائیں گے۔”

زمین کا وہ حصہ روتا ہے جب کوئی ایسا شخص فوت ہوتا ہے جس نے زمین کے اس حصے پر سجدہ کیا ہو۔ سجدے کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ماتھا زمین پر ٹیک کر ہماری دعائیں آسمانوں کی بلندیوں کو چیرتے ہوئے عرشِ الہی تک پہنچ جاتی ہیں ۔

Jhuk Jana Hi Muhabbat Hai Aur Is
Baat Ka Sab Se Bara Saboot Sajda Hai


اپنا تبصرہ بھیجیں