مائیں تو بس مائیں ہوتی ہیں
لب پہ ہر دَم دُعائیں ہوتی ہیں
مائیں تو بس جزائیں ہوتی ہیں
رَب کی انمول عطائیں ہوتی ہیں
زیست کی تپتی دُھوپ میں
اَبر ٹھنڈی چھائیں ہوتی ہیں
خَفا ہو کر بھی فکر مند رہنا
یہ ماؤں کی ادائیں ہوتی ہیں
آسیب مُصیبت جاتے ہیں رُک
گرد دُعا کی ردائیں ہوتی ہیں
ہر بُزرگ کی کر عزت دل سے
سانجھے باپ مائیں ہوتی ہیں
دیکھنے سے بھی ملے ثواب
سب معاف سزائیں ہوتی ہیں
کما لے جنت ، کر کے خدمت
ملتی اِک بار مائیں ہوتی ہیں
ماں سے محروم گھر میں جیسے
قبرستان سی صدائیں ہوتی ہیں
سلامت سایہ جب تک دُنیا میں
قبول سب دُعائیں ہوتی ہیں
معاف کردے گر ماں ” کبیر ”
معاف سب خطائیں ہوتی ہیں
شھزادہ کبیر