یا اللہ جو آپ کی چاہت ہے
اسے میرا ارادہ کر دیجیئے
آمین
اس کائنات کا رب اللہ تبارک وتعالی ہے اسی کے حکم کے تابع یہ پوری کائنات ہے اسکے حکم کے بر خلاف ایک پتّہ بھی حرکت نہیں کرسکتا تاہماللہ تبارک وتعالی نے بندے کو اختیار دیا ہے کہ اگر چاہو تو میری مشئیت کے آگے سر کو جھکا کر مومنین صالحین اور مقربین میں شامل ہوجاؤ، چاہو تو انکار کر کے منکرین مغضبین اور منافقین میں اپنا نام لکھوا لو ، تو پتہ چلا بندہ مختار بھی اور کچھ مقامات پر مجبور بھی ، لیکن باز پرس وہاں ہوگی جہاں وہ مختار ہے تو اب یہ بندے کے اختیار میں چاہے تو ہدایت و شکر گزاری کی راہ اختیار کرے اور چاہے تو کفر وناشکری کی راہ اختیار کرے اور یہی حکمت خداوندی ہے۔۔ قرآن پاک میں اس کے متعلق اسطرح بیان کیا گیا ہے :
• “اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍۖ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَاهُ سَـمِيْعًا بَصِيْـرًا (2)”
(بے شک ہم نے انسان کو ایک مرکب بوند سے پیدا کیا، ہم اس کی آزمائش کرنا چاہتے تھے پس ہم نے اسے سننے والا دیکھنے والا بنا دیا)۔
“اِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا (3)”
(بے شک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، یا تو وہ شکر گزار ہے اور یا ناشکرا)۔(سورة الدهر)
• “وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاهَا “(7)
(اور جان کی اور اس کی جس نے اس کو درست کیا)۔
“فَاَلْهَـمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَا “(8)
(پھر اس کو اس کی بدی اور نیکی سمجھائی)۔(سورة الشمس)
•” فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّّمَنْ شَآءَ فَلْيَكْـفُرْ ۚ “(سورةالكهف)
(پھر جو چاہے مان لے اور جو چاہے انکار کر دے)۔
•” ذٰلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ ۖ فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ مَاٰبًا “(39)(سورةالنبأ)۔
(یہ یقینی دن ہے پس جو چاہے اپنے رب کے پاس ٹھکانا بنا لے)۔
قران مکمل ضابطہ حیات ہے جہاں اللہ اور بندے کی مشئیت کا ذکر اس میں موجود ہے وہیں دوسری جانب اس میں بندوں کو آداب بندگی کا طریقہ بھی سکھایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر اچھے کام سے پہلے اِنْ شَآءَ اللّـٰه کہے۔۔
• قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا هِىَ اِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَاِنَّـآ اِنْ شَآءَ اللّـٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ (سوره بقره /آیه 70)
(انہوں نے کہا: آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے واضح طور پر بیان کردے کہ وہ گائے کیسی ہے؟ کیونکہ بیشک گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے اور اگراللہ چاہے گا تو یقینا ہم راہ پالیں گے۔)
مسلمان ہونا ۔۔ مطلب کہ اللہ کے سامنے جھکنا ، ایسا جھکنا کہ بندہ اللہ کے لیے خود کو خالی کر دے یعنی اپنی خواہشات کو، اپنی چاہت کو اسکی چاہت کے مطابق بنالے، جیسا وہ چاہتا ہے ویسا بن جائے اور اپنی چاہت اور ارادے کو اسکی چاہت اور ارادے کے ماتحت جانے کیونکہ مشئیت الہی اصل ہے اور مشئیت خاکی فرع یعنی اسکا ہر ارادہ اللہ کے ارادے کے اور اسکے اذن کا محتاج ہے۔ ایک بندہ کسی چیز کے حصول کے لیے تگ و دو کرتا ہے پر لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ اسے حاصل نہیں کر پاتا اور کسی کو کوئی چیز بنا کسی محنت کے مل جاتی ہے، تو ان سب مراحل میں اللہ کی مشئیت شامل حال ہوتی ہے یعنی آپ کا کوشش کرنا، اللہ کی چاہت کے سبب سے تھا نہ ملنا بھی اسی کی چاہت کے سبب سے ہے اور کسی کو بنا محنت کے کچھ مل جانا بھی رب کی مشئیت کے سبب سے ہے حتی کہ ہر اچھا عمل اور نیکی کی توفیق سب اسی کی مشئیت کے سبب سے ہے ۔۔اللہ نہ چاہے تو ہمیں توفیق نہ ملے نہ دعا مانگنے کی نہ نیک عمل کی۔۔
قرآن پاک میں اسی کے متعلق مذکور ہے “اللہ نہ چاہے تو تم چاہ بھی نہیں سکتے”۔
• “وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَئءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ(۲۳) اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ٘-وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا(۲۴) “سورة الكهف
(اور ہر گز کسی چیز کے متعلق نہ کہنا کہ میں کل یہ کرنے والاہوں۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے اور جب تم بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرلواور یوں کہو کہ قریب ہے کہ میرا رب مجھے اس واقعے سے زیادہ قریب ہدایت کا کوئی راستہ دکھائے)۔
اللہ کی چاہت ہی وہ مقام ہے جس کو پاکر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ورضوا عنہ کے درجے پر فائز ہوئے یہ ہی وہ مقام ہے جس کو پاکر اولیاء اللہ مقام ولایت پر فائز ہوئے۔۔ اپنی چاہت کو اسکی چاہت میں ڈھالنا ہی بندگی ہے۔۔وجود کو خواہشات سے خالی کرنا اور خالص اسی کا ہوجانا ہی بندگی ہے۔۔ہم دنیا میں آئے ہی اللہ کے لیے ہیں ہم یہاں موجود ہی اللہ کے لیے ہیں۔۔ یہی الله کی چاہت ہے کہ ہم اپنے وجود کی نفی کریں اورصرف اسکی اتباع اور اسکے حبیبﷺ کی اتباع کریں۔ محبت کریں تو اللہ اور اسکے رسولﷺ کے خاطر نفرت کریں تو اللہ اور اسکے رسولﷺکے خاطر۔۔ آئیے خود کو مع چاہت کے اسکے سپرد کردیں کہ یہی اصل مقصد حیات ہے ۔۔