باپ چاہتا ہے کہ آپ اس سے زیادہ کامیاب ہوں


باپ واحد شخص ہے جو چاہتا ہے
کہ آپ اس سے زیادہ کامیاب ہوں

باپ چاہتا ہے کہ آپ اس سے زیادہ کامیاب ہوں

باپ وہ ہستی ہے جو اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لے دن رات جتا رہتا ہے۔ نہ اس کو اپنے آرام کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے صحت کی۔ وہ اپنے دن رات صرف اس جہد میں صرف کرتا ہے کہ کچھ اور محنت کرلوں تو اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرلوں۔ اپنی اولاد کی ہر اس خواہش کو پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے جو وہ اپنے بچپن میں پوری نہیں کرپایا۔

باپ وہ ہستی ہے جو دن کو دن نہیں سمجھتا۔ راتوں کو بھی فکر معاش میں بے چین رہتاہے۔ باپ کبھی ہمیں اپنی پریشانی یا الجھن نہیں بتاتا بلکہ خود سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہر مشکل اور دشواری کا سامنا کرتا ہے۔
حالات جتنے بھی ناساز ہوں وہ خود سامنا کرتا ہے۔ دن بھر کی مشقت کے بعد پہلا خیال اپنے بچوں کا آتا ہے کہ بچے میرے منتظر ہوں گے کیوں نہ جاتے ہوئے اپنی جیب کے مطابق ٹافی سموسے جلیبی یا ان کا من پسند کوئی کھلونا لیتا جاوں یا اس کو اپنے بچے کی کوئی فرمائش یاد آجاتی ہے جو ننھے نے گھر سے نکلتے وقت کر ڈالی تھی۔

باپ اک چھت کی مانند ہوتا ہے جس طرح اک چھت گھر کے مکین کو موسم کے سرد گرم ماحول سے محفوظ رکھتی ہے اسی طرح باپ موسم کے نارواں سلوک سے ہمیں تحفظ دیتا ہے۔ آندھی طوفان، گرج چمک اور گنگھور گھٹا سے بچا کے رکھتا ہے۔ اس بات کا یقین اس وقت آیا جب میرے پیارے بابا دنیا سے رخصت ہوئے۔ ایسا لگا کہ گھر کی چھت اڑ گئی ہو اور ہر آنے جانے والا یا بے درد موسم اپنا روز دکھانے کے لئے آزاد ہوگیا ہو۔ تیز ہواوں اور آندھی نے زندگی کو گھیر لیا ہو۔

تیز دھوپ اور آنکھوں کو چندیانے والی روشنی نے جسم اور آنکھوں کو ناکارہ کردیاہو۔ دنیا کیا ہوتی ہے اور دنیا کے کتنے رنگ و روپ ہوتے ہیں وہ بابا کے جانے کے بعد خوب پتا لگے۔ ایک سایہ فگن چھٹ گیا اور جہان فانی نے اپنا اصل ظاہر کرنا شروع کیا تب پتہ لگا کہ مسائل کیا ہوتے ہیں اور مشکلات کا اصل مفہوم کیا ہوتا یے زندگی کے کتنے ایسے ناگزیر پہلو تھے جس سے میں نا آشنا تھی اور جس کے بھنک بابا نے کبھی بھی لگنے نہ دی۔

اپنے باپ کی عزت کیجئے۔ احترام کو ملحوظ خاطر رکھئے۔ ان بوڑھی آنکھوں میں کبھی جھانک کے تو دیکھئے تو ان جھڑپوں میں ڈوبی انکھوں میں جلتے انتظار کے دیپ نظر آئیں گے۔ کبھی ان روٹھے وجود کو گلے سے لگا کر اس میں اولاد کی محبت کو جذب کرکے دیکھئے ٹھیک اسی طرح جب آپ کمزور اور ناتواں تھے اور باہر کسی کتے کے بھونکنے سے ڈر جایا کرتے تھے اور آپ کے والد محترم اپنے جوان بازووں میں بھر کے اپ کو کہتے تھے کہ میرا بیٹا/ بیٹی کیوں ڈرتا ہے اس کے بابا ہیں نا۔

اپ بھی اسی طرح جاکے کہا کریں کہ بابا آپ کا بیٹا/بیٹی ہے نا۔ جس طرح جب آپ کو چوٹ یا تکلیف کا احساس ہوتا تو وہ گھنٹوں آپ کا غم غلط کرنے کو کہانیاں سنایا کرتے تھے آج آپ بھی 24 گھنٹوں میں سے کچھ پل ان کو کہانیاں سنا آیا کریں۔ جس طرح آپ کی خواہش پر آپ کا باپ دن بھر کا تھکا ہارا فورا گھوڑا بن جایا کرتا تھا آج آپ اس کا ہاتھ تھام کر اس کو اپنے ہونے کا لمس دے آیا کریں۔

کبھی ان کی طرف سے دل رنجیدہ ہوجائے یا ان کے بار بار بھول جانے یا سوال کرنے کی عادت طبیعت کو گراں گزرے تو اس وقت کو یاد کرلیا کریں جب آپ اپنی توتلی زبان میں گھنٹوں اک ہی سوال دہرایا کرتے تھے اور ہر بار یہی شخص جو اس وقت عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا ہے۔ اپ کو پیار سے اک ہی جواب بتایا کرتا تھا۔ آپ بھی اسی پیار و محبت سے جواب دہرایا کریں۔

یاد رکھئے ماں باپ کی رضا اللہ کی رضا ہے۔

ہم جتنے بڑے عالم ہوجائیں عبادت گزار ہوجائیں لاکھوں روپے اللہ کی راہ پہ لٹا دیں۔ چاہے جتنے اخلاق کا مظاہرہ کریں لیکن اگر ہمارا حسن سلوک اپنے والدین سے اچھا نہیں ہوا تو ہم سے زیادہ اللہ کا قہر کا حقدار کوئی نا ہوگا۔

Baap Wahid Shakhs Hai Jo Chahta Hai
Kah Aap Us Se Zyada Kamyab Hon


اپنا تبصرہ بھیجیں