حدثنا محمد بن عثمان الدمشقي ابو الجماهر، قال: حدثنا ابو كعب ايوب بن محمد السعدي، حدثني سليمان بن حبيب المحاربي، عن ابي امامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انا زعيم ببيت في ربض الجنة لمن ترك المراء، وإن كان محقا، وببيت في وسط الجنة لمن ترك الكذب، وإن كان مازحا، وببيت في اعلى الجنة لمن حسن خلقه”.
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش خلق ہو“۔
ابو داؤد حدیث نمبر: 4800
دین کامل اسلام میں جھوٹ بہت بڑا عیب اور بد ترین گناہ کبیرہ ہے ۔جھوٹ کا مطلب ہے ”وہ بات جو واقعہ کے خلاف ہو“ یعنی اصل میں وہ بات اس طرح نہیں ہوتی ۔جس طرح بولنے والا اسے بیان کرتا ہے ۔اس طرح وہ دوسروں کو فریب دیتا ہے ۔جو اللہ اور بندوں کے نزدیک بہت برا فعل ہے ۔جھوٹ خواہ زبان سے بولا جائے یا عمل سے ظاہر کیا جائے ۔مذاق کے طور پر ہو یا بچوں کو ڈرانے یا بہلانے کےلئے ہر طرح سے گناہ کبیرہ اور حرام ہے ۔ جھوٹ گناہوں کا دروازہ ہے کیونکہ ایک جھوٹ بول کر اسے چھپانے کےلئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ۔قرآن و حدیث اس میں قبیح عادت کو چھوڑنے کی سختی سے تاکید کی گئی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لئے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے ،اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے بھی زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے ،جتنی قدم سے لغزش ہوتی ہے
مگر افسوس کہ آج ہمیں مغربی تہذیب کی تقلید کا شوق ہے مغربی تہذیب کی بے ہودہ رسومات او ر لایعنی روایات کا جال پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اوراس میں پوری دنیا جکڑی ہوئی ہے خاص کر مسلمان چاہے وہ کہیں کا بھی رہنے والا ہو وہ تو اپنی کامیابی کے خواب مغربی تہذیب ہی میں دیکھنے لگا ہے، مغربی تہذیب کی جو رسومات ہمارے معاشرہ میں رائج ہوتی جارہی ہیں، انھیں میں سے ایک رسم ”اپریل فول“ منانے کی رسم بھی ہے۔ اس رسم کے تحت یکم اپریل کی تاریخ میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکا دینا، مذاق کے نام پر بے وقوف بنانا اور اذیت دینا نہ صرف جائز سمجھا جاتا ہے؛ بلکہ اسے ایک کمال قرار دیا جاتا ہے۔ جو شخص جتنی صفائی اور چابک دستی سے دوسروں کو جتنا بڑا دھوکا دے دے، اُتنا ہی اُس کو ذہین، قابلِ تعریف اور یکم اپریل کی تاریخ سے صحیح فائدہ اٹھانے والا سمجھا جاتا ہے۔ یہ رسم اخلاقی، شرعی اور تاریخی ہر اعتبار سے خلافِ مروت، خلافِ تہذیب اور انتہائی شرمناک ہے۔ نیز عقل ونقل کے بھی خلاف ہے۔
تمسخر و استہزاء اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں نہ کسی فرد کو دوسرے فرد سے تمسخر کرنے کی اجازت ہے اور نہ کسی جماعت کو دوسری جماعت کیساتھ استہزاء کی اجازت دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو مزید احتیاط سے کام لینا چاہئے ، لیکن افسوس صد افسوس مسلمانوں پر کہ جنہیں خیر امت کا اعزاز ملا ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہود و نصاریٰ کی صریح مخالفت کی تاکید کے باوجود آج وہ اپنے ازلی دشمن یہودو نصاریٰ کے جملہ رسم و رواج ، طرزعمل اور فیشن کو بڑی ہی فراخ دلی سے قبول کر رہے ہیں جب کہ انہیں اس سے بچنے اور احتیاط کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ تاریخی طور پریہ بات واضح ہے کہ اسپین پر جب عیسائیوں نے دوبارہ قبضہ کیا تو مسلمانوں کا بے تحاشا خون بہایا۔آئے روز قتل وغارت کے بازار گرم کیے۔ بالآخر تھک ہار کر بادشاہ فرڈینینڈنے عام اعلان کروایا کہ مسلمانوں کی جان یہاں محفوظ نہیں ،ہم نے انہیں ایک اور اسلامی ملک میں بسانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو مسلمان وہاں جانا چاہیں ان کے لیے ایک بحری جہاز کا انتظام کیا گیا ہے جو انہیں اسلامی سرزمین پر چھوڑ آئے گا۔حکومت کے اس اعلان سے مسلمانوں کی کثیر تعداد اسلامی ملک کے شوق میں جہاز پر سوار ہوگئی۔جب جہاز سمندر کے عین درمیان میں پہنچا تو فرڈینینڈ کے فوجیوں نے بحری جہاز میں بذریعہ بارود سوراخ کردیا اور خود بحفاظت وہاں سے بھاگ نکلے۔دیکھتے ہی دیکھتے پورا جہاز غرقاب ہوگیا۔ عیسائی دنیا اس پر بہت خوش ہوئی اور فرڈینینڈکو اس شرارت پر داد دی۔یہ یکم اپریل کا دن تھا۔آج یہ دن مغربی دنیا میں مسلمانوں کو ڈبونے کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔
تو مسلمانوں کا اپریل فول منانا جائز نہیں،کیونکہ اس میں کئی مفاسد ہیں جو ناجائز اور حرام ہیں۔ اس میں غیرمسلموں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور حدیث مبارکہ میں ہے
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے (سنن ابی داؤد، رقم:4033)۔
فرمان مصطفٰی ﷺ: ” سن لو جھوٹ بولنا، اور جھوٹی گواہی دینا بڑے گناہ ہیں۔
(صحیح البخاری ،الحدیث:۲۶۵۴،ص۲۰۹)
منافق کی علامت:جب بات کرے تو جھوٹ بولے (صحیح مسلم،رقم ۵۹، ص ۵۰)
فرمان مصطفٰی ﷺ ”مؤمن ميں دو خصلتيں جمع نہيں ہو سکتيں: (۱)بخل اور (۲)جھوٹ۔”
(کنزالعمال ،الحدیث:۷۳۸۸،ج۳،ص۱۸۱)
منافق جب بات کرتا ہے تُو جھوٹ بولتا ہے
اللہ عزوجل ہمیں اس اپریل فُول کی لعنت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
مومن میں دو خصلتیں جمع نہیں ہوسکتیں مگر افسوس کہ ساتھ آج جھوٹ بولنا معاشرے کا رواج بن چکا ہے
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اس قبیح فعل سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور حکومت وقت کو بھی اس پر پابندی لگانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے
–