یہ تو ظرف ظرف کی بات ہے
کوئی سہہ گیا کوئی کہہ گیا
“ظرف ظرف کی بات ہے کوئی سہہ گیا کوئی کہہ گیا،،
گلاس آدھا خالی ہے آدھا بھرا ہوا ہے۔۔۔جس کا جتنا ظرف ہے اتنی اُس کی نگاہ ہے۔ لفظ اگرنگاہ کے ترجمان ہیں تو انسان کے ظرف کےعکاس بھی۔جس کا جتنا ظرف ہو وہ اُتنا ہی دیتا ہےیا وہی دے سکتا ہے جو اُس کے پاس ہو۔ہم انسان ہیں۔۔۔ ہمارے دینے کی ایک حد ہے۔۔۔ اتنا دو کہ دوسرے کا ظرف اس کو لینے کے قابل بھی ہو۔پانے والے کے ظرف کا پیمانہ اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ ناپسندیدہ “ٹھہرے” پانی پر گرے کنکر کی طرح ایک پل کو شور کرے اور پھرغائب ہو جائے نا کہ اُسے بے قابو کرکے کناروں سے باہر نکال دے۔کیکر کا کام زخم دینا اور پھول کا کام لمس کا احساس دینا ہے۔ظرف کی پہچان ہو جائے تو دکھ کا احساس کم ہو جاتا ہے۔زندگی آخری سانس تک عطا کرتی جاتی ہےلینے والے کا ظرف سلامت رہنا چاہیے۔
ہم سب اپنی اپنی حدودوقیود کے اندر اپنے اپنے ظرف کی چھلنیاں لے کر وقت کے بہتے دریا میں سے اُن سنہری ذروں کی تلاش میں ہیں جو ہمیں چھو کر مالا مال کر دیں۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ نہ جانے کب اور کیسے کتنے گوہر نایاب ہمارے ظرف کی چھلنی میں سے خاموشی سے گذر کرتہۂ خاک ہو گئے۔
انسان کی زندگی میں ظرف کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے، کیونکہ انسان کو اس ظرف سے ہی پرکھا اور پہچانا جا تا ہے، جس کا ظرف جتنا اونچا اور اعلیٰ ہو گا وہ انسان اتنا ہی قابل احترام اورباعزت ہوگا در اصل ظرف ہی انسان کی عزت و آبرو کا بھرم رکھتا ہے اس لئے وہ دوسروں کی نظر وں میں قابل قدر بن جاتا ہے، انسان کی اعلیٰ ظرفی زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان میں اس کے بہت کام آتی ہے۔ اور اعلیٰ ظرفی سے ہی وہ لوگ بہت بہت کچھ سہہ جاتے ہیں اور زندگی میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔