خاموش رہیئے
یا پھر اپنے الفاظ کو اس قابل بنایئے
کہ کو خاموشی توڑنے کے لائق ہوں
فضول بولنے سے خاموش رہنا بہتر ہے
راجر بیکن
ایک شکاری بہت باتونی (بہت زیادہ باتیں کرنے والا) تھا.ایک دفعہ وہ جنگل شکار کرنے گیا تو اس کو جنگل میں کہیں آدمی کی کھوپڑی ملی حسب عادت اس نے کھوپڑی سے سوال کیا.”تجھے کس چیز نے یہاں لایا؟” تو کھوپڑی سے آواز آئی کہ” زیادہ باتوں نے مجھے یہاں لایا.”چونکہ شکاری سادہ لوح انسان تھے اس کی بات نہیں سمجھ سکھا اور تجسس میں پڑا.آخر کار اس نے بادشاہ کے سامنے یہ خبر پہنچائی کہ فلاں جنگل میں اک بولنے والی کھوپڑی ہے.بادشاہ اس احمقانہ بات پہ حیران ہوا اور گارڈز کو شکاری کے ساتھ جنگل بھیجا اور حکم دیا کہ اگر شکاری کی بات جھوٹی ثابت ہوجائے تو اسے وہیں قتل کرو..
شکاری بہت خوشی سے ان گارڈز کے ساتھ جنگل پہنچ کر کھوپڑی ڈھونڈنے لگے.آخر انہیں کھوپڑی ملی مگر بولتی نہیں,شکاری نے بہت منت سماجت کی پھر بھی کھوپڑی کی بولتی بند ہی رہی. آخر کار گارڈز نے بادشاہ کے حکم کے مطابق شکاری کو وہیں قتل کردیا.تو کھوپڑی سے آواز آئی “تجھے کس چیز نے یہاں لایا؟” تو شکاری کی لاش سے آواز آئی کہ باتیں کرنا مجھے یہاں لے آیا.
یعنی آدمی کو ہمیشہ کم بولنا چاہیے. فضول باتیں کرنے سے خاموش رہنا بہتر ہے. حدیث شریف کا مفہوم ہے
“جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پائی” بولنا اگر چاندی ہے تو خاموشی سونا ہے.کم بولنا عقلمندی ہے.زیادہ باتیں کرنا عقل کو کھا جاتا ہے.