ماں باپ کی دوائی کی پرچی اکثر کھو جاتی ہے
پر لوگ وصیت کے کاغذات سنبھال کر رکھتے ہیں
لوگوں کواکثراپنے ماں باپ کی دوائی کی پرچی سے زیادہ ان کے وصیت کے کاغذات زیادہ عزیز ہوتے ہیں- دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں ۔جن کے سروں پہ والدین کے سائے کی چادر ہے دوسرے وہ جو اس جنت سے محروم ہیں۔اور میری تحریر کا حصہ پہلے وہ لوگ ہیں جن کے والدین حیات ہیں اور وہ اپنے والدین کی قدر نہیں کرتے-
آج کے معاشرے کا زیادہ تر یہی حال ہے اور والدین کی نا فرمانی کرنے میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں کرتے- اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ والدین کو اف تک نہ کہو آج معاشرہ اس ایک لفظ اف کو والدین سے نافرمانی کے سفر میں بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے- اپنے معصوم بچے کی انگلی تھامے والدین کو کبھی یہ خیال تک نہ آتا ہو گا کہ یہی بچہ جب عمر کا سفر طے کریگا تو ان کی پرورش کی چھتری ہاتھ میں تھامے معاشرے کی ہواؤں میں جب اپنے مستقبل کا سفر طے کرنے نکلے گا تو فقط بھولتا چلا جائے گا ۔کہ کس طرح ماں باپ نے زندگی کی تمام راحتیں آسائش و آرام کی قربانی دی ۔ایک تنقیدی نظر ڈالئیے اپنے گردو نواح میں تو ایسے کردار وافر تعداد میں پائے جائیں گے۔کہ جنہیں قطعی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کس طرح اپنے والدین کی نا فرمانی کا مرتکب بن چکے ہیں ۔آج کل اولاد اپنے والدین کو بوجھ سمجھتی ہے۔وہ رشتہ بوجھ کیسے ہو سکتا ہے جو بچپن سے جوانی تک ہمارا بوجھ اٹھاتا ہے۔اور پھر رفتہ رفتہ ہمارے کردار کے بوجھ تلے دب جاتا ہے ۔
غفلت کا شکار لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ مقافات عمل جب ہوتا ہے۔تو پھر ہر کہانی دہرائی جاتی ہے ۔صدیوں کی تھکن سے دوہرے جھکے ہوئے شانے تب اپنی اولاد کی توجہ تلاش کرتے ہیں ۔اور جب انہیں یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اولاد انہیں بے ضرورت سمجھ کر جوانی کی مستیوں میں کھو چکی ہے۔تو تب بھی وہ کبھی اپنی اولاد کو دل سے بدعا نہیں دیتے ۔جو لوگ اپنے والدین کی بدعا حاصل کر کہ سمجھتے ہیں کہ وہ چین سے وقت گزار لیں گے تو یہ سنگین مذاق ہے ۔اپنی دنیا اور آخرت سنوارنی ہے والدین کی دل و جان سے عزت کیجیئے ۔ان سے اونچی آواز میں بحث کرنیوالوں کیلئیے ۔دنیا و ا ٓخرت عبرت کا نشان بن جاتے ہیں ۔اپنے والدین سے محبت سے پیش آئیے-