سرخ کپڑوں میں کسی کے ساتھ بیٹی دیکھ کر
رنگ بوڑھے باپ کا صدمے سے پیلا پڑگیا
دو دلوں کو زندگی بھر کی محبت مل گئی
ایک بوڑھا آدمی زندہ زمیں میں گڑھ گیا
عبدالباسط صائمؔ
یوم تجدید محبت منانے کے نام پر کھلم کھلا بے راہ روی کی ترغیب دی جا رہی ہے اور اسلامی معاشرے میں ان غیر مسلموں کے تہواروں کو جان بوجھ کر ہوا دی جارہی ہے تاکہ مسلمان اپنے مبارک اور پاک تہوار چھوڑ کر غیر اسلامی تہوار منا کر اسلام دور ہو جائیں ۔یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے اور اس کی تشہیر میں پرنٹ میڈیا اور الیکڑونک میڈیا کو پھرپور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اور اس دن کو خاص پروگرام دکھا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے کہ یہ غیر مضرت رساں یامسلمانوں ہی کا کوئی تہوار ہے ۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے یہ انسان کی ناجائز نفسانی خواہشات کے پروان چڑھانے کو ہوا دینا ہے ۔ کہ جس کی اسلام کسی صورت اجازت نہیں دیتا ۔ اور ہم اب اس دن اربوں روپے خرچ کرکے بڑے شایان شان سے اس کو مناتے ہیں کہ جیسے بہت ہی مقدس تہوار ہو۔ اگر ہم یورپ کی بات کریں تو ادھر بھی اس تہوار کو آوارہ نوجوانوں کی عیاشی اور محبت کے نام سے اس دن کو منسوب کیا گیا ہے ۔ لیکن حقیقت میں ایک غیر اسلامی معاشرے میں بھی عوام کی اکثریت اس تہوار کو غلط سمجھتی ہے ۔ لیکن ہمارے معاشرہ کہ جس کو ایک اسلامی معاشرہ تصور کیا جاتا ہے اس میں اس قسم کے تہوار منانا ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
ہر سال جنرل سٹورز اور کتابوں کی دکانوں پر اس دن کے حوالے سے جو ویلنٹائن ڈے کارڈز فروخت ہوتے ہیں کہ اتنے کارڈز اور تحفے عید کے مبارک دن پر بھی نہیں ہوتے اس طرح ہمارے معاشرے میں لادینیت اور بے راہ روی پھیل چکی ہے کہ جس کو قومی سطح پر درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہاں ،کارڈ اور پھول فروخت کرنے والوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ اس کا آغاز رومن سینٹ ویلنٹائین کی مناسبت سے ہوا کہ جس کو مذہب تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتوں میں رکھا گیا قید کے دوران ویلنٹائین کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی اور اس کو پھانسی پر چڑھانے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کو الودعی دعوت نامہ لکھا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا ‘‘تمھارا ویلنٹائین ’’ کہ واقعہ14فروری 279عیسوی کو پیش آیا اس کی یاد میں اس دن کو منایا جاتا ہے ۔
اس حقیقت کے بعد ساری بات عیاں ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں اس طرح کے تہواروں کو پروان چڑھانا اسلامی معاشرے کی تباہی و بربادی پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ ہمیں اس کے بارے میں بہت گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں اپنی اسلامی اقدار کو محفوظ کرنا چاہیے اور ان پر عمل کرکے ایک اچھا مسلمان بن کر دکھانا چاہیے ۔ ہمیں اس بات کو بھی سوچنا چاہیے کہ ہمارے اسلامی تہواروں کو ختم کیا جا رہا ہے کیا کسی غیر مسلم نے عید کا تہوار منایا ؟ اس کا جواب یقینا نہیں ہی ہو گا۔ تو پھر اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ غیر مسلموں کی اس سازش کو ناکام بنا کر اسلام کی اقدار کو اپنائیں ۔