شہادت کی حقیقت ہے
فنا ہو کے بقاء ہونا!!!
کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے نام ان کی زندگی ہی میں ان کی پہچان بن جاتے ہیں اور ان سے بھی زیادہ خوش قسمت وہ ہوتے ہیں جو اپنے قدموں کے نشان تاریخ کے صفحات پر چھوڑ جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ زندہ رہنا اورموت کے بعد بھی زندہ رہنا ہر انسان کا خواب اور خواہش ہوتی ہے اور یہ خواہش انسانی نفسیات کا حصہ ہے۔ دراصل فنا اور بقا اس کائنات کے دو رنگ اور دو متضاد پہلو ہیں۔
اللہ وحدہٗ لاشریک نے جو یہ کائنات تخلیق فرمائی ہے، اس کا انحصار محبت پر ہے۔ اگر محبت کے عنصر کو اس میں سے نکال دیا جائے تو یہ کائنات بے آب و رنگ ہوکر رہ جائے گی اور اس میں سوائے تاریکی کے اور کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’(اے حبیب!) لوگوں سے کہہ دو، اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری (اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی) اتباع کرو‘‘۔
اتباع محبت پر موقوف ہوتی ہے، محبت کے بغیر اتباع اور اتباع کے بغیر محبت ناممکن ہے۔ نواسہ رسول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے نانا جان رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ آپ نے اپنے نانا جان کی تعلیمات پر مکمل عمل کیا اور ان کی اتباع میں اپنی تمام زندگی صرف کردی اور اپنے لہو سے اپنے نانا جان کے دین متین کی آبیاری کرگئے، جس کے لئے انہیں بہتر (۷۲) نفوس کی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا اور خود بھی جام شہادت نوش فرماکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید ہو گئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
’’اللہ کی راہ میں قربان ہوکر شہید ہونے والوں کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں اور تم ان کی زندگیوں کا شعور نہیں رکھتے‘‘۔ لغوی اعتبار سے شہادت گواہی دینے اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا نام ہے۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے شہادت پائی۔ شہید فنا ہوکر بقاء حاصل کرتا ہے۔
مولانا روم مثنوی شریف میں ایک مقام پر رقم طراز ہیں کہ
’’اگر تو اللہ کے لئے روٹی دے گا تو وہ تجھے بھی اس سے بہتر روٹی عطا کرے گا اور اگر تو اللہ کے لئے اپنی یہ جان پیش کرے گا تو وہ تجھے اس سے بہتر جان عطا کرے گا‘‘
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا خون دے کر نسل انسانی کو فنا اور بقاء اور فلسفہ شہادت کے رموز عملاً سمجھا دیا۔ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول پر عمل کرتے ہوئے اپنی جان نثار کردی کہ
’’اللہ کی نا فرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں‘‘۔
شہادت کا رتبہ خوش قسمت لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اپنے پیاروں کو کھونے والے پسماندگان کا صدمہ ، ان کی تکلیف ، رنج وغم کا ہونا تو ایک فطری عمل ہے لیکن انہیں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ اﷲ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہوتی ہے چاہے اسے ہم محسوس کریں یا نہ کریں ۔ بہر حال جانے والے شہداءاپنے پسماندگان کے لیے بھی مغفرت وبخشش کا ذریعہ وسیلہ بنیں گے ۔
میں ایک عام سی لڑکی ہوں
میں کل کیا تھی یہ میں بھول گئی ہوں
میں جو آج ہوں یہ مجھے یاد رکھنا ہے،
میں اسلام کی بیٹی ہوں
راہِ حق میری منزل ہے
شاہین میرا اپنا ہے