وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَيْتَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ
میں نے رمضان کے اس روزے کی نیت کی
صحابی رسول عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہرعمل کے لئے نیت ضروری ہے بغیر نیت کے کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے ، روزہ بھی ایک عمل ہے لہٰذا اس کے لئے بھی نیت ضروری ہے-
اس نیت میں لفظ غَدِ آیا ہے جس کا مطلب ہے ” آنے والا کل“ اس نیت کا ترجمہ یہ ہے ۔۔۔ ”میں کل کے روزہ کی نیت کرتا یا کرتی ہوں“ ۔ جبکہ رات یا سحری میں نیت یہ کرنا چاہئے کہ میں آج کے روزہ کی نیت کرتا یا کرتی ہوں۔۔۔۔ نویت الیوم من شہر رمضان ۔۔۔۔ جیسے یکم رمضان کا آغاز مغرب کے بعد ہوجاتا ہے۔ یکم رمضان کی رات کو تراویح اور دن کو روزہ رکھا جاتا ہے۔ جب یکم رمضان کی تاریخ مغرب سے اگلی مغرب تک ایک ہی ہے تو اس دوران روزہ کی نیت میں آج کے روزہ کی نیت کرنی چاہئے نہ کہ آنے والے کل کی۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پورے رمضان کے روزوں کے لئے ایک ہی نیت کافی ہے اورہرروزہ کے لئے الگ الگ نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ ہردن ہرروزہ کی الگ الگ نیت کرنی ضروری ہے،دلائل ملاحظہ ہوں:
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّہُ کَانَ یَقُول لَا یَصُومُ ِلَّا مَنْ أَجْمَعَ الصِّیَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ(موطأ مالک رقم ٦ واسنادہ صحیح)۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ روزہ صرف وہی رکھے جوفجرسے پہلے اس کی نیت کرلے۔
اماں حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
لَا صِیَامَ لِمَنْ لَمْ یُجْمِعْ قَبْلَ الْفَجْرِ(سنن النسائی رقم ٢٣٣٦واسنادہ صحیح )۔
معلوم ہواکہ ہرروزے کے لئے الگ سے نیت ضروری ہے۔
نیت کا مطلب دل سے کسی کام کے کرنے کا عزم وارادہ کرنا ہے،یعنی یہ دل کا کام ہے ، جیساکہ ہم ہرکام کے لئے دل میں پہلے عزم وارادہ کرتے ہیں پھر ہمارے ذریعہ وہ کام عمل میں آتاہے ۔مزید یہ کہ زبان سے نیت کرنے سے متعلق کوئی موضوع اورمن گھڑت روایت تک نہیں ملتی اورلوگ”نویت بصوم غد من شھر رمضان” یا اس جیسے جو الفاظ بطورنیت پڑھتے ہیں یہ لوگوں کی اپنی ایجاد ہے کسی صحیح تو درکنا ر ضعیف اورموضوع روایت میں بھی یہ الفاظ نہیں ملتے۔