اقبال کے شاہین اور قائد کی اُمید


اقبال ہم شرمندہ ہیں
ہم نہ تو تیرے شاہین بن سکے
اور نہ ہی قائد کی اُمید
اقصیٰ منیر
عکس

قوموں اور ملکوں کی ترقی کو ماپنے کے تین درجے ہوتے ہیں‘ قدرتی وسائل‘ تکنیکی وسائل اور انسانی وسائل‘ قدرت نے ہمیں وسائل سے مالا مال ایک شاندار ملک دیا تھا‘ اس میں صحرا سے لے کر پہاڑ اور سمندر سے لے کر میدان تک دنیا کے سارے وسائل موجود ہیں‘ ٹیکنالوجیکل وسائل میں بھی ہم دنیا سے کسی لحاظ سے پیچھے نہیں ہیں‘ پاکستان تیسری دنیا کا ملک ہونے کے باوجود ایٹمی طاقت ہے اور اس کے سائنس دان خلاء تک کو تسخیر کر چکے ہیں لیکن جہاں تک انسانی وسائل کا تعلق ہے تو بدقسمتی سے ہم نے اس شعبے میں کوئی ترقی نہیں کی‘ پاکستان میں آج سیاست سے لے کر سفارت تک اور فکرسے لے کر اخلاق تک تمام انسانی شعبے زوال پذیر ہیں

اقبال اور قائد

بڑی شخصیات کی عظمت کا اندازہ ان کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے ہوتا ہے اگر ہم قائداعظم کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کا جائزہ لیں تو وہ اپنے عہد کے تمام اکابرین سے بلند نظر آتے ہیں مثلاً آپ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں کو لیجیے‘پاکستان کی پہلی کابینہ کا اجلاس تھا‘ اے ڈی سی لیفٹیننٹ گل حسن نے پوچھا ’’سر اجلاس میں چائے سرو کی جائے یا کافی‘‘ قائداعظم نے چونک کر سر اٹھایا اور سخت لہجے میں فرمایا ’’ یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے‘‘ اے ڈی سی گھبرا گیا‘ آپ نے بات جاری رکھی ’’ جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر واپس گھر جا کر پیئے‘ قوم کا پیسہ قوم کے لیے ہے وزیروں کے لیے نہیں‘‘ اس حکم کے بعد جب تک قائداعظم برسر اقتدار رہے کابینہ کے اجلاسوں میں سادہ پانی کے سوا کچھ سرو نہ کیا گیا‘قائداعظم کے دور میں گورنر جنرل ہاؤس کے لیے ساڑھے 38 روپے کا سامان خریدا گیا‘ آپ نے حساب منگوا لیا‘ کچھ چیزیں محترمہ فاطمہ جناح نے منگوائی تھیں۔حکم دیا ’’ یہ پیسے ان کے اکاؤنٹ سے کاٹے جائیں‘‘ دوتین چیزیں ان کے ذاتی استعمال کے لیے تھیں ‘فرمایا ’’یہ پیسے میرے اکاؤنٹ سے لے لیے جائیں‘‘ باقی چیزیں گورنر جنرل ہاؤس کے لیے تھیں‘ فرمایا ’’ ٹھیک ہے یہ رقم سرکاری خزانے سے ادا کردی جائے لیکن آیندہ احتیاط کی جائے‘‘

آپ زیارت میں مقیم تھے‘ زیارت میں سردی پڑ رہی تھی‘ کرنل الٰہی بخش نے نئے موزے پیش کردیے‘ دیکھے تو بہت پسند فرمائے‘ ریٹ پوچھا‘ بتایا ’’دو روپے‘‘ گھبرا کر بولے ’’کرنل یہ تو بہت مہنگے ہیں‘‘ عرض کیا ’’سر یہ آپ کے اکاؤنٹ سے خریدے گئے ہیں‘‘ فرمایا ’’میرا اکاؤنٹ بھی قوم کی امانت ہے‘ ایک غریب ملک کے سربراہ کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہیے‘‘ موزے لپیٹے اور کرنل الٰہی بخش کو واپس کرنے کا حکم دے دیا‘ زیارت ہی میں ایک نرس کی خدمت سے متاثر ہوئے اور اس سے پوچھا ’’بیٹی میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں‘‘ نرس نے عرض کیا ’’ سر میں پنجاب سے ہوں‘ میرا سارا خاندان پنجاب میں ہے‘ میں اکیلی کوئٹہ میں نوکری کر رہی ہوں‘ آپ میری ٹرانسفر پنجاب کرا دیں‘‘ اداس لہجے میں جواب دیا ’’سوری بیٹی یہ محکمہ صحت کا کام ہے گورنر جنرل کا نہیں‘‘آپ نے اپنے طیارے میں رائٹنگ ٹیبل لگوانے کا آرڈر دے دیا‘ فائل وزارت خزانہ پہنچی تو خزانے کے ایک ڈپٹی سیکریٹری نے اجازت تو دے دی لیکن یہ نوٹ لکھ دیا ’’ گورنر جنرل اس قسم کے احکامات سے پہلے وزارت خزانہ سے اجازت کے پابند ہیں‘‘ آپ کو معلوم ہوا تو وزارت خزانہ سے تحریری معذرت کی اور اپنا حکم منسوخ کردیا اور رہا پھاٹک والا قصہ تو کون نہیں جانتا گل حسن نے آپ کی گاڑی گزارنے کے لیے ملیر ریلوے کا پھاٹک کھلوا دیا تھا‘ آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا‘ پھاٹک بند کرانے کا حکم دیا اور فرمایا ’’ اگر میں ہی قانون کی پابندی نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا‘‘۔

وہ قائداعظم محمد علی جناح تھے اور یہ ان کا پاکستان تھا لیکن پھر ہم نے ترقی کرنا شروع کردی اور ہم نے پاکستان کو اس جگہ پہنچا دیا جہاں پھاٹک تو رہے ایک طرف ہمارے ملک میں سربراہ مملکت کے آنے سے ایک گھنٹہ پہلے سڑکوں کے تمام سگنل بند کردیے جاتے ہیں‘ دونوں اطراف ٹریفک روک دی جاتی ہے اور جب تک شاہی سواری نہیں گزرتی اس وقت تک ٹریفک کھلتی ہے اور نہ ہی اشارے۔

یہ پاکستان کی وہ ترقی یافتہ شکل ہے جس میں اس وقت 20 کروڑ لوگ رہ رہے ہیں‘ جب قائداعظم گورنر جنرل ہاؤس سے نکلتے تھے تو ان کے ساتھ پولیس کی صرف ایک گاڑی ہوتی تھی‘ اس گاڑی میں صرف ایک انسپکٹر ہوتا تھا اور وہ بھی غیر مسلم تھا اور یہ وہ وقت تھا جب گاندھی قتل ہو چکے تھے اور قائداعظم کی جان کو سخت خطرہ تھا‘ قائداعظم اس خطرے کے باوجود سیکیورٹی کے بغیر روز کھلی ہوا میں سیر کرتے تھے لیکن آج کے پاکستان میں وزیراعظم نااہل ہونے کے باوجود بلٹ پروف گاڑیوں‘ ماہر سیکیورٹی گارڈز اور انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کے بغیر دس کلومیٹر کا فاصلہ طے نہیں کرتے اور جس میں آج تمام میئرز‘ وزراء‘ ارکان اسمبلی اور کرنل لیول کے افسر سیکیورٹی کے بغیر باہر نہیں نکلتے‘افسوس ہم 70 برس میں اس ملک میں مساوات رائج نہیں کرسکے۔

Iqbal Hum Sharminda Hein
Hum Na to Tere Shaheen Ban Sake
Or Na Quaid Ki Umeed


اپنا تبصرہ بھیجیں