جگ میں رہ کر تُجھ سے بھاگوں
میری کیا اوقات ہے مولا
اقصیٰ منیر
اللہ تو ایک مجرد حقیقت ہے۔ جسے نہ تو ہم دیکھ سکتے ہیں اور نہ اس کی آواز سن سکتے ہیں۔ اس لئے ہم اپنے معاملات کے فیصلے اس سے کس طرح کروا سکتے ہیں؟ ہم اس کی محکومیت کس طرح اختیار کر سکتے ہیں؟ اس کے لئے اس نے یہ بتا دیا کہ یہ فیصلے اس ضابطہ قوانین (کتاب اللہ) کی رو سے کئے جائیں گے۔ جسے اس نے محمد سلام“علیہ پر نازل کیا تھا۔ اس ضمن میں خود محمد سلام“علیہ سے کہلوا دیا کہ “کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا حاکم چاہوں حالا نکہ اس نے ایسی کتاب نازل کر دی ہے جو ہر بات کو نکھار کر بیان کرتی ہے“- لہٰذا اللہ کی محکومیت اختیار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان قوانین کی اطاعت کی جائے جنہیں اس نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے اور ان قوانین کے علاوہ کسی اور قانون کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ سورت الا نعام آیت ١١٥
“تم صرف اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب نے تمہاری طرف نازل کیا ہے اور اس کے سوا کسی سر پرست کا اتباع مت کرو تھوڑے ہیں جو اس حقیقت کو اپنے سامنے رکھتے ہیں“۔ سورت اعراف آیت ٣
انسان اس حقیقت کو پہچان لے کہ یہ دنیا ایک عارضی جگہ ہے تو وہ کبھی کوئی گناہ نہ کرے لیکن شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ ایسے ایسے گناہ کر بیٹھتا ہے جو اس کے لئے دوزخ کے در کھول دیتے ہیں۔ کوشش کریں کہ اپنی زندگی کو صراط مستقیم پر سچے دل کے ساتھ چلائیں اور اپنی زندگی سے تمام ہندوانی رسومات کا خاتمہ کریں اور سادہ زندگی صبر و شکر کے ساتھ بسر کریں تاکہ جاتے وقت ہمارے ہاتھ خالی نہ ہوں۔ اس دنیا میں جو باقی رہے گا اور جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا وہ اللہ رب العزت کی ذات ہے جو لافانی ہے۔