خواہشات کا بوجھ


زندگی ہلکی پھلکی سی ہے
بوجھ تو سارا خواہشات کا ہے

خواھشات کا بوجھ

خواہشات کی ایک وسیع و عریض دنیا ہے جو عجائبات اور طلسمات سے پُر ہے۔ ایسا ایسا منظر اُبھرتا ہے کہ اُس پر جان فدا کرنے کو جی چاہتا ہے۔ آج سے ایک صدی پہلے حضرت غالب نے کہا تھا؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم بہت نکلے

دراصل منزل تک پہنچنے کے بجائے ہم خواہشات کے صحرا میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔ خواہش اور نیت میں بڑی مماثلت ہے نیت نیک ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے ثواب بھی ملتاہے۔ صلہ بھی۔صلہ تو اسی دنیا میں ترقی و خوشحالی کی صورت میں مل سکتا ہے ثواب اگلے جہان میں اور انسان کو ان دونوں چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔ یادرکھو خواہش بڑی ظالم چیزہے۔ خواہشیں انسان کو رسوائی بھی دے سکتی ہیں۔ محبت بھی نفرت بھی ۔خواہشیں مقدر بدل بھی سکتی ہیں خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں ۔

کہتے ہیں ایک بادشاہ نے ایک درویش سے کہا۔۔
” مانگو کیا مانگتے ہو؟” درویش نے اپنا کشکول آگے کردیا اور عاجزی سے بولا۔۔

” حضور! صرف میرا کشکول بھر دیں۔۔” بادشاہ نے فوراً اپنے گلے کے ہار اتارے انگوٹھیاں اتاریں جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈال دیں لیکن کشکول بڑا تھا اور مال و متاع کم ۔۔ لہٰزا اس نے فوراً خزانے کے انچارج کو بلایا۔۔

انچارج نے ہیرے جواہرات کی بوری لے کر حاضر ہوا‘ بادشاہ نے پوری بوری الٹ دی لیکن جوں جوں جواہرات کشکول میں گرتے گئے کشکول بڑا ہوتا گیا۔۔ یہاں تک کہ تمام جواہرات غائب ہوگئے۔۔

بادشاہ کو بے عزتی کا احساس ہوا اس نے خزانے کہ منہ کھول دیئے لیکن کشکول بھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔ خزانے کے بعد وزراء کی باری‘ اس کے بعد درباریوں اور تجوریوں کی باری آئی‘ لیکن کشکول خالی کا خالی رہا۔۔ ایک ایک کے کے سارا شہر خالی ہوگیا لیکن کشکول خالی رہا۔۔ آخر بادشاہ ہار گیا درویش جیت گیا۔

درویش نے کشکول بادشاہ کے سامنے الٹا‘ مسکرایا‘ سلام کیا اور واپس مڑ گیا‘ بادشاہ‘ درویش کے پیچھے بھاگا اور ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔۔

” حضور ! مجھے صرف اتنا بتادیں یہ کشکول کس چیز کا بنا ہوا ہے ؟” درویش مسکرایا۔۔
” اے نادان ! یہ خواہشات سے بنا ہوا کشکول ہے‘ جسے صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔۔۔”

Zindagi Halki Phulki Si Hay
Bojh To Sara Khwahshat Ka Hay


اپنا تبصرہ بھیجیں