جس نگری میں
عقل اور شعور گھنگرو باندھ لیں
وہاں بھوک نہیں ناچتی
نفس ناچتا ہے
انسانیت ناچتی ہے
بے حسی بہت تیزی کے ساتھ ہم سب میں پروان چڑھ رہی ہے۔ بے حسی کے ساتھ ساتھ دیکھنے میں جو آرہا ہے وہ یہ ہے کہ لوٹ مار میں بھی ہم دلچسپی رکھتے ہیں۔ میڈیا نے جو گیم شو شروع کیے ہیں اور جس تیزی کے ساتھ عوام میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں، ان گیم شوز کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مفت کا مال حاصل کرنے کا شوق پروان چڑھ رہا ہے، جہاز، مرسڈیز، بڑی بڑی گاڑیاں، گھر وغیرہ وغیرہ۔
لاشعوری اتنی بڑھ چکی ہےاحمد پور شرقیہ کے حوالے سے ایک واقعہ نظر سے گزرا، مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے 6 جولائی 2012 کو احمد پور کے ایک دماغی ابنارمل آدمی، غلام عباس کو قرآن پاک کے اوراق جلانے کے الزام کے تحت گرفتار کرکے پولیس اسٹیشن لایا گیا، بعدازاں قریبی مسجد سے اشتعال انگیز اعلان کیا گیا کہ اس آدمی نے توہین قرآن کی ہے اور وہ حوالات میں ہے۔ اس پر گاؤں کے لوگ مشتعل ہوکر گھروں سے نکل آئے اور گاؤں سے گزرتی ہوئی مرکزی لاہور کراچی ہائی وے بلاک کردی، انھوں نے حوالات کے دروازے توڑ کر اس بے گناہ دماغی ابنارمل شخص کو حوالات سے نکال کر اس پر پٹرول چھڑکا اور آگ لگادی۔ لگ بھگ دو ہزار کا مقامی مشتعل ہجوم وہاں کھڑا دیکھتا رہا اور جلتے ہوئے انسان کو پتھر مارتے رہے، جب تک کہ وہ شخص جل کر راکھ نہ ہوگیا۔ 25 جون 2017 کو اسی مرکزی لاہور کراچی ہائی وے پر 50 ہزار لیٹر پٹرول لے جاتا ہوا ایک ٹرالر الٹ گیا، لوگوں کو لاؤڈ اسپیکر سے لیک ہوتے ہوئے پٹرول کی نوید سنائی گئی، لوگ گھروں سے بالٹیاں، ڈبے لے کر پہنچ گئے، سیکڑوں لوگ اپنے اپنے برتن لے کر ٹرک کے اردگرد پٹرول بھرنے لگے۔ کہتے ہیں کہ ٹرک کے سوراخ کو بڑا کرنے کے لیے ہتھوڑے سے ضرب لگائی گئی تو پٹرول نے آگ پکڑ لی، ٹینکر دھماکے سے پھٹ گیا، 155 سے زائد لوگ عین اس جگہ جل کر راکھ ہوگئے جہاں غلام عباس کو پانچ سال پہلے زندہ جلایا گیا تھا۔ اللہ اکبر ! بے شک اللہ پاک موجود ہے اور وہ ذرہ برابر بھی غافل نہیں۔
تعلیم اور علم کی کمی نے ہمیں کیا سے کیا بنا دیا، اور ابھی تک ایسا تعلیم پر کوئی کام ہو بھی نہیں رہا ہے کہ عام آدمی سے خاص آدمی تک انسانیت کو جگایا جاسکے، اگر یہی حال رہا تو کیا ہم جانوروں کی طرح اپنے رویے رکھیں گے۔ گو اب بھی ہم ایک جنگل میں رہ رہے ہیں مگر امید رکھتے ہیں کہ اللہ پاک ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ بحیثیت مسلمان پوری زندگی ہمارے پاس موجود ہے، نبی پاکؐ کی حیات طیبہ ایک رول ماڈل، سادہ، ایمان افروز، سچے کھرے، قول و فعل میں یکساں ہمارے نبیؐ جن کا کوئی ثانی نہیں، جو قیامت تک ہمارے لیے ایک ایسی روشن مثال ہیں کہ ان کا ہلکا سا سایہ بھی ہماری اندھیری زندگیوں کو روشن کرسکتا ہے، مگر ہم نہ جانے کہاں کہاں بھٹک رہے ہیں؟ ہمارے اعمال! ذلیل و خوار، رسوا ہونے کے باوجود، بے شرمی کی موٹی موٹی چادریں کیا حقیقت کو چھپا سکتی ہیں؟
علم اور تعلیم کی کمی بلکہ نہ ہونے کے برابر تعلیم نے ہم بہترین انسانوں والی قوم کو جانور سے بدتر بنادیا ہے، ہم بھاگے جا رہے ہیں، بھاگے جا رہے ہیں کہاں؟ کچھ پتا نہیں، مغربی طرز کے لباس پہن کر کیا ہم ماڈرن ہوگئے، پھٹی ہوئی جینز پہن کر، ناچنے گانے سے ہم لبرل ہوگئے؟ کیا بغیر دوپٹے کے سوٹ پہن کر ہم نے انتہا پسندی کو مات دے دی؟ کیا بے نمازی ہوکر، قرآن کو بند کرکے رکھ دینے سے ہم آزاد ہوگئے؟ پانچ وقت مساجد کے لاؤڈ اسپیکر سے اذانوں کی آوازیں کبھی مدھم نہیں ہوں گی، ہر اس شخص کو اپنی طرف بلاتی رہیں گی جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا، بے حسی آخر کب تک؟ عدل و انصاف ہی معاشروں کا حسن ہے، ہر خاص و عام کی زندگی انسانوں والی ہو اور بے شک اللہ پاک سب علم رکھنے والا ہے، بس آخری بات وہ یہ کہ جس معاشرے میں عقل اور شعور گھنگھرو باندھ لیں وہاں نفس بھی ناچتا ہے، اور انسانیت بھی