خواہشات کے پاؤں چادر سے باہر نکل جایئں
تو پھر سکون نصیب نہیں ہوتا
خواہشیں زندگی کے ہر دور میں ہمارے دلوں میں جنم لیتی اور پھلتی پھولتی ہیں۔ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جاتے ہیں ہماری آرزوؤں اور تمناؤں میں بھی تبدیلیاں آتی جاتی ہیں۔ خواہشوں کا سفر دراصل خود شناسی سے شروع ہوتا ہے اور اگر اسے احتیاط اور ضبط کی لگامیں نہ ڈالی جائیں تو یہ خود پرستی کی اس انتہاء تک پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی جھولی میں سوائے نقصان کے کچھ باقی نہیں رہتا۔ کبھی یہ نقصان صرف اپنی ذات تک محدود رہتا ہے تاہم اکثر یہ اپنے سے وابستہ سبھی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی ہر خواہش پر دم نکلے، بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے۔ خواہشیں پالتے رہنا کوئی برائی نہیں لیکن اپنے آپ کو خواہشات کا غلام بنا لینا انتہائی معیوب ہے آج لوگوں نے اپنے دل کو خواہشات کا قبرستان بنا لیا ہے جس کا اخلاقی،سماجی اور معاشرتی کوئی جواز نہیں حالانکہ خواہش کو ترقی کی جانب پہلا قدم کہا جا سکتاہے۔ لیکن کسی نے خوب کہا کہ
خواہشات کے پاؤں چادر سے باہر نکل جایئں
تو پھر سکون نصیب نہیں ہوتا
خواہشات کو اس حد تک اپنے اوپر سوار نہیں کرنا چاہیے کہ ان کی تکمیل کرنے کو دل ہر وقت بے سکون رہنے لگے ۔ اپنے رہن سہن ،رسم و رواج ،دکھا وے اور نمو د و نما ئش سے اجتناب کریں کیو نکہ عام زندگی میں سا دگی اپنا نے اور دو سرو ں کی اندھی تقلید سے گریز کر کے ہی ہم اپنے نفس کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔دوسروں کی تقلید کرنا ہمیں بے شمار پریشا نیو ں میں مبتلا کر سکتا ہے ۔سادگی انسان کو بہت سے عذا بو ں سے بچا تی ہے ۔اسی لئے میا نہ روی کی تلقین کی جا تی ہے دولت کی ہوس لو گو ں کو ا خلا قیات اور انسا نیت کے درجے سے نیچے گرا رہی ہے ۔اپنی زندگی میں سکون و آ رام پیدا کرنے کا ایک ہی آسان را ستہ ہے۔ کہ خوا ہشات کو بے لگام نہ ہو نے دیا جائے ورنہ بے سکونی ہی رہے گی۔