ہر شخص ترے شہر میں ہے سنگ بداماں
جو پھول کرے ہم پہ نچھاور نہیں ملتا
جو پھول بھی دے زخم بھی دے اور تبسم
ہاں مجھ کو مگر ایسا ستمگر نہیں ملتا
تم میں سے کسی نے اسے دیکھا ہو بولو
ہم سے تو وہ خوابوں میں بھی آ کر نہیں ملتا
سب حسن مہاجن کی تجوری میں ہوا بند
اب گوری کے ماتھے پہ بھی جھومر نہیں ملتا
آلات ہیں اوزار ہیں افواج ہیں لیکن
وہ تین سو تیرہ کا سا لشکر نہیں ملتا
قصہ نہ کہانی یہ ہیں تاریخ کے اوراق
بغداد کی گلیوں میں گداگر نہیں ملتا