زبان دے مٹھے تے دل دے کوڑے


زبان دے مٹھے تے دل دے کوڑے
شریک بتھیرے تے سجن تھوڑے

منافقت

یہ پنجابی کہاوت “زبان دے مٹھے تے دل دے کوڑے شریک بتھیرے تے سجن تھوڑے” منافق رویےٌ کی طرف اشارہ کرتی ہے- “منافق رویےٌ” کو منافقت کہتے ہیں- منافقت ایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو جس میں انسان کا ظاہر، باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔ اس صفت رذیلہ کی ہمارے دین میں بڑی مذمت کی گئی ہے اور اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے اور بعض روایات ایسی بھی ملتی ہیں کہ منافقین کفار سے بھی پہلے جہنم میں جائیں گے۔ مشہور منافق بلکہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا واقعہ مشہور ہے، سرکار دوعالمﷺ نے اس کے بیٹے کی فرمائش پر جو سچے اور پکے مسلمان تھے، عبداللہ بن ابی کے کفن کے لیے اپنا پیرہن مبارک عنایت فرمایا تھا اور اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی تھی مگر پھر بھی اللہ تعالی کی جانب سے تنبیہ نازل ہوئی اور اس کی مغفرت سے بیزاری کا اعلان فرمایا گیا۔ تو منافقت ایسی بری اور خبیث چیز ہے۔

انسان کو زندگی گزارنے کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ رشتوں اور معاشرتی تعلقات کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور ان رشتوں کو کیسے نبھانا ہے یہ ہر انسان کی اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ان رشتوں کو پورے خلوص دل سے نبھاتے ہیں اور کچھ لوگ صرف ضرورت کے تحت اور منافقت کے ساتھ۔ اگر صرف دین کا ہی نقصان ہوتا اور دنیاوی فائدے حاصل ہورہے ہوتے اور یہ دنیا جسے ہم عملاً دین پر مقدم سمجھتے ہیں اس صفت رزیلہ کو اپنانے سے بن رہی ہوتی-

انسان اور منافقت کا رشتہ عرصہ دراز سے چلا آ رہا ہے لیکن آج کل یہ اتنی عام ہو چکی ہے کہ ہر کسی کی زبان اور عمل سے ظاہر ہوتی ہے اور کبھی کبھی تو آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ جو جملے آپ اپنے لئے سامنے والے کے منہ سے سُن رہے ہیں آیا وہ واقعی حقیقت پر مبنی ہیں یا ان کو منافقت کے شیرے میں لپیٹ کر آپ تک پہنچایا گیا ہے۔ کچھ لوگوں میں منافقت نے اپنی جڑیں اس حد تک مضبوط کر رکھی ہیں کہ اس کے بغیر ان کا کسی سے بات کرنا ایسا ہے کہ”آبیل مجھے مار”۔ بندہ جب منافقت کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کرتا ہے تو اُسے ہر قدم پر جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔

Zuban Day Mithay Tay Dil Day Koray
Shreek Btheray Tya Sajjn Thoray


اپنا تبصرہ بھیجیں