ہمارے اچھے اور برے اعمال


رمضان میں شیاطین قید کر دئیے جاتے ہیں
تا کہ ہمیں یہ معلوم ہوسکے کہ

ہمارے اچھے اور برے اعمال کرنے میں
ہمارا اپنا اور شیطان کا کتنا ہاتھ ہے

نفس عیاں !!!!

آج ہر انسان پریشان ہے کسی کوجانی پریشانی ہے تو کسی کومالی، کسی کو منصب کی پریشانی ہے تو کسی کوعزت وآبرو کی، امیر اپنی کوٹھی میں پریشان تو غریب جَھونپڑی میں، کوئی روزگار اور حالات سے نالاں ہے تو کوئی عزیز واقارب اور دوست واحباب سے شاکی۔ تقریباً ہر آدمی کسی نہ کسی فکر، ٹینشن اور پریشانی میں مبتلاہے۔

دلی سکون،قرار اور اطمینان حاصل کرنے کے لیے ہر ایک اپنے ذہن اوراپنی سوچ کے مطابق اپنی پریشانیوں کی از خود تشخیص کرکے ان کے علاج میں لگتاہے۔ کوئی اقتدار،منصب یا عہدہ میں سکون تلاش کرتاہے؛ مگر جب اُسے مطلوبہ منصب مل جاتا ہے تو پتہ چلتاہے کہ اس میں تو سکون نام کی کوئی چیز ہی نہیں؛ بلکہ منصب کی ذمہ داریوں اورمنصب کے زوال کے اندیشوں کی صورت میں اور زیادہ تفکرات ہیں۔

جب بھی میں کہتا ہوں: اے اللہ! میرا حال دیکھ
حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامہ اعما ل دیکھ

سکون وراحت کا تعلّق صرف جسم سے نہیں ہے؛ بلکہ جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی ان کا تقاضہ کرتی ہے، مادی وسائل اور راحت وسکون کے ظاہری اسباب جسم کو تو آرام دے سکتے ہیں؛ مگر روح کو قرار اور دل کو سکون بخشنا اُن کے بس کی بات نہیں۔ روح کی تسکین اور اس کی غذا عبادت اور ذکر اللہ ہیں؛ کیونکہ انسان کی فطری خواہش ہے کہ وہ کسی لافانی ذات کی بندگی کرے، اس فطری خواہش کی تسکین مادہ پرست زندگی کے اسباب ووسائل سے پوری نہیں ہوسکتی،روح کی تسکین کے لیے روحانی اسباب (اعمال صالحہ جیسے ذکر اللہ اور عبادت وغیرہ) کا اختیار کرنا ضروری ہے۔

Ramzan Mein Shyateen Qaid Ker Diye Jatay Hen
Ta Keh Hmen Ye Maloom Ho Skay Keh
Hmaray Achay Aur Buray Amaal Krnay Mein
Hmara Apna Aur Shetan Ka Kitna Bara Hath Hay


اپنا تبصرہ بھیجیں