زندگی سفر ہے ، منزل نہیں
زندگی ایک سفر ہے اور انسان عالم بقا کی طرف رواں دواں ہے ۔ ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے ۔ عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں ، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہماری اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت ہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ داری سونپ کر ایک محدود وقت کیلئے اس سفر پر روانہ کیا ہے ۔ عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم اپنے ہی گھر واپس جائیں کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جانے والوں کو کوئی بھی دانا نہیں کہتا ۔
کیا ہمیں خوردونوش ، ہنسی مذاق ، کھیل کود ، دولت دنیا سمیٹنے ، کوٹھیاں اور بنگلے بنانے ، فخر و مباہات ، جاہ و منصب کے حصول اور اپنی من مانیاں کرنے کیلئے پیدا کیا گیا ؟ ہز گز ، ہر گز نہیں…. اللہ کی قسم نہیں…. ہمیں ان کاموں کیلئے نہیں بلکہ اس عظیم مقصد کیلئے پیدا کیا گیا ہے
جسے خود ہمارے خالق نے بیان فرمایا ہے :
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ، نہ تو میں ان سے روزی مانگتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ یقینا اللہ تعالیٰ تو خود سب کو روزی دینے والا ، صاحب قوت اور زبردست ہے ۔( الذاریات : 58-56 )
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور تم لوگ قیامت کے دن اپنے کئے کا پورا پورا اجر پاؤ گے ۔ پس جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا وہی کامیاب ہوا اور دنیا کی چند روزہ زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ “( آل عمران : 185 )
کیا ہم نے نہیں سنا کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ ہر بات وحی الٰہی کے مطابق فرماتے ہیں ، انہوں نے فرمایا : میری امت کے لوگوں کی اوسط عمریں ساٹھ سے ستر برس ہونگی ۔ بہت کم لوگ اس سے آگے بڑھیں گے ۔ ( ترمذی )
خالق کائنات نے سچ فرمایا ہے :
” قیامت کے روز مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم تو بس ایک پَل کیلئے دنیا میں گئے تھے ۔ “( الروم : 55 )
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” اور موت کی بیہوشی برحق خبر لے کر آئی ، یہی وہ حقیقت ہے جس کے اعتراف سے تو راہ فرار اختیار کرتا تھا ۔ “( ق : 19 )
لیکن درحقیقت مرنے سے آنکھیں بند نہیں ہوتیں بلکہ آنکھیں تو کھلتی ہیں –