ناقابلِ معافی جرم


ڈاکٹر علی شریعتی نے درست کہا تھا کہ

ایک جاہل سماج میں شعور رکھنا
ایک ناقابلِ معافی جرم ہے

اور جس معاشرے میں جھوٹ اور جہالت کو بہتر سمجھا جائے۔ تو وہاں سچائی اور حق کی بات کرنا بہادری نہیں بلکہ بے وقوفی ہوتی ہے۔ فرض کریں ایک لوہے مکان کا جو کھڑکیوں کے بغیر ہو بالکل ناقابل تقسیم، جس کے اندر بہت سے لوگ سو رہے ہیں جو جلد دم گھٹنے سے مر جائیں گے- چونکہ وہ اپنی نیند میں مر جائیں گے لہذا موت کا درد محسوس نہیں کریں گے- اب اگر آپ ان میں سے چند کچی نیند والے افراد کو اونچی آواز سے جگائیں گے تو ان بدنصیب لوگوں کو اٹل موت کی اذیت سے دوچار کرتے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ان سے نیکی کر رہے ہیں-

یہ سطریں لو شون کی پاگل آدمی کی ڈائری سے ہیں
لو شون نے تو یہ سطور چینی معاشرے کے لیے لکھیں تھیں مگر میں انہیں موجودہ پاکستانی معاشرے سے ہم آہنگ سمجھتی ہوں- کسی ایسے شخص کا تصور کروجو اپنی بند مٹھیوں سے آہنی گھر کی دیواروں کو زور سے پیٹ ریا ہے اور کچی نیند میں سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو صرف ایک نام میرے ذہن میں آتا ہے اور وہ ہے سعادت حسن منٹو

ناقابلِ معافی جرم

سعادت حسن منٹو, ایسا نام جس سے آج تک ترقی پسند اور قدامت پسند پیچھا نہیں چھڑا سکے- مختلف لوگوں کیلئے مختلف اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے-

مذہبی لوگوں کیلئے منٹو ایک بدکار, بازاری اور فحاش ہو سکتا ہے-
مؤرخین اس کے افسانوں سے بٹوارے کے بارے میں مختلف باتیں حاصل کرتے ہیں-
معقول لوگوں کیلئے وہ مستقبل کی خبریں دینے والا ہے جو آج بھی اتنا ہی ہم آہنگ ہے جتنا کل تھا-

تاہم میرے لیے منٹو ایک خانہ بدوش، سماج سے ھتکارہ ہوا اور منحرف تھا- میں اسے اس لیے ایسا کہتی ہوں کیونکہ اس نے رائج سماجی اصولوں سے انحراف کیا تھا- پدرشاہی، منافقت، خودپرستی، ہٹ دھرمی اور قدامت پرستی جیسے اصول جن کی معاشرے میں پیروی کی جاتی ہے- منافقت کا مارا معاشرہ جہاں عورتوں کو متعصب انکھوں سے دیکھا جاتا ہے-

کیسے اس نے سماج کو اس کا اصلی چہرہ دکھانے کی جرأت کی؟
کیسے اس نے ایسے بصورت معاشرے کے چہرے سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی؟
کیسے اس نے ایک ایسے معاشرے کو بیدار کرنے کی کوشش کی جو انکار کی کیفیت میں رہنا چاہتا ہے؟
کیا ایسے فحش, گمراہ اور ناپاک شخص کو عدالتوں میں نہیں گھسیٹنا چاہیے؟ میرے خیال میں پاک سر زمین کے لوگوں کے خلاف کیے گئے جرائم کی روشنی میں قدامت پسندوں کی طرف سے منٹو کے خلاف مقدمات دائر کرنا چاہیے تھا. دور جاہلیت میں شعور رکھنے سے بڑا جرم کیا یو سکتا ہے، قطعی ناقابل معافی……!!!

میرا خیال ہے منٹو نے شعوررکھنے جیسے جرم کا ارتکاب کیا اور اس کی مناسب قیمت ادا کی، منٹو کا وجود صاف ستھرے آئینے کے مثل تھا جس میں معاشرہ اپنی غلاظت، فحش تصویر دیکھ سکتا تھا- جب تک معاشرے میں ناانصافی کا معاملہ حل نہیں کیا جاتا منٹو کے الفاظ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے- جہاں تک میرے جیسے آدھے سوئے ہوئے لوگوں کا تعلق ہے جن کو منٹو نے جھٹکے دیئے اور بیدار کرنے کی کوشش کی وہ اس بیمار معاشرے میں اذیت ناک اٹل موت کا شکار ہونگے- ہائے…. جہالت نعمت ہے……!!!

Aik Jaahil Samaaj Mein Shaur Rakhna
Aik NaQaabil e Maafi Jurm Hai


اپنا تبصرہ بھیجیں