بہتر ہے کہ نہ ڈالو ستاروں پہ کمندیں
انسان کی خبر لو کہ وہ دم توڑ رہا ہے
دورِ حاضر میں انسان نے چاند پر قدم رکھ لیا ہے اور اب دوسرے سیاروں پہ قدم رکھنے کا سوچ رہا ہے لیکن جس حد تک اسکو سائنس میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا ذوق ہے اتنا انسانیت کی خدمت کا جذبہ نہیں ہے انسان میں تجسس کا مادہ فطری ہے،اسی تجسس نے اسے خلاء تک پہنچایا اور اسے زمین کی گہرائی میں بھی اتارا لیکن اس نے کائنات کے حدود اربع کی تلاش میں اپنی ذات کو ہی دنیا کی ان بھول بھلیوں میں فراموش کر دیا،آج سائنس و ٹیکنالوجی کی حد درجہ بڑھتی ہوئی ترقی نے انسان سے انسانیت کو ہی خارج کردیا اور اسے جانوروں کی صف میں کھڑا کر دیا ہے،ذرا غور کریں تو انسان کو اپنی وحشت اور بربریت کی سینکڑوں داستانیں ہر روز اخباروں میں پڑھنے کے لئے مل جائیں گی انسان ابلیس سے اپنے ربط و ضبط کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے
ترقی کے ان وسائل نے جہاں انسان کے در پر دولت کے انبار لگادیئے ہیں وہیں انسان سے اس کے اعلیٰ اقدار کو چھین لیا ہے،اب انسان اعلیٰ قدروں سے خالی وجود لئے ترقی کے نام پر رقص ابلیس میں مصروف ہے،اس طرح وہ بربادی کے دلدل میں مزید دھنستا چلا جارہا ہے۔ آج امت مسلمہ ظلم کا شکار ہو رہی ہے مسئلہ کشمیر کو لے لیں وہاں پر بھی مسلمانوں کو ہی ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے پھر برما، لیبیبا، شام اور فلسطین پر ترقی کرنے والوں نے ہی کیاکیا ظلم کیے۔
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو بھی طاقت دے کہ وہ ملک وملت کیلئے سچے جذبے اور پوری محنت سے کام کریں اس طرح ہم دنیا کی روشن اور درخشاں قوم کی حیثیت سے زندگی کے ہر طوفان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
تاریخ کے ان تاریک زمانوں میں ایسے انسان بھی برابر پائے جاتے رہے ہیں جنھوں نے انسانوں کو انسانیت کا سبق پڑھانے کی پوری جد وجہد کی ہے بلکہ اس کوشش میں بڑی دشواریوں کا انھیں سامنا کرنا پڑا ہے، مگر اپنے خالق کے سامنے یہی لوگ مقبول وسرخرو شمار ہوئے ہیں، اس حقیقت کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے۔
’’وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بَِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘‘ [سورۃ العصر](قسم ہے عصر کی، بیشک انسان خسارہ میں ہے مگر جو لوگ کہ ایمان لائے اور کیے بھلے کام اور آپس میں تاکید کرتے رہے سچے دین کی اور آپس میں تاکید کرتے رہے تحمل کی۔