شُکر کر فکر نہ کر…..!!!!!
انسان ہمیشہ دو حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں ہوتا ہے۔ یا تو نعمت اور آسائش میں ہے تو اللہ کا شکر ادا کرے یا تکلیف اور آزمائش میں ہے تو صبر کرے۔ جہاں تک اللہ کی نعمتوں کی بات ہے تو ہمارے ارد گرد اس قدر نعمتیں موجود ہوتی ہیں کہ کبھی ہم غور ہی نہیں کرتے کہ یہ بھی اللہ کی نعمتیں ہیں لہذا ان نعمتوں پر اللہ کے لیے شکر کا جذبہ بھی دل میں بیدار نہیں ہوتا۔ تو اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی عادت اسی وقت پختہ ہو گی جب ہمیں مالک کی نعمتوں کے نعمت ہونے کا شعور اور احساس ہو گا۔ یعنی کسی شی ء کے بارے ذہن میں اللہ کی نعمت ہونے کا تصور ابھرے اور ساتھ ہی دل میں اس نعمت کے حوالے سے تشکر کے جذبات پیدا ہوں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں انسانوں کو جو اپنی ذات اور ماحول میں بار بار غور کرنے کی دعوت دی ہے تو اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ انسان اپنے پروردگار کی نعمتوں کو پہچان کا ان کا شکر ادا کرے۔
ہمیں ہر حال میں اللہ ربّ العزت کا شکر ادا کرنا چائیے۔ جو نعمتیں اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہیں ہم انکا شمار تک نہیں کرسکتے۔ انسان بنانا اور مسلمان گھرانہ میں پیدا کرنا،حضور ﷺ کا امُتی ہونا، عقل سلیم کے ساتھ تمام جسمانی اعضاء دینا، یہ وہ نعمتیں ہیں جسکا شکر ہم تمام عمر سجدہ میں بھی پڑے رہیں پھر بھی ادا نہیں کر سکتے۔ لیکن انسان بڑا جلدباز اور نا شکرا ہے، ذرا سی تکلیف برداشت نہیں ہوتی، صبر نہیں ہوتا۔تکلیف ، بیماری یا پریشانی کے وقت یہ کہنا شروع کر دیتا ہے کہ’ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے‘ یہ بہت بڑی ناشکری ہے۔ کیا یہ اللہ کا کرم نہیں ہے کہ اس نے ہمیں صحت و تندرستی، مال و جائیداد، عقل و علم، اہل و عیال، عزت و شان ، حسن و وجاہت کے ساتھ زندگی کا اعلی معیار دیا ہے، یہ سب جس اللہ کا دیا ہوا ہے جو ہماری آزمائش کیلئے ہے اگر اللہ اس میں سے کچھ لے لیتا ہے تو نا شکری کیوں ؟