بدن سے روح جاتی ہے تو بچھتی ہے صفِ ماتم
مگر کردار مر جائے تو کیوں ماتم نہیں ہوتا؟
اگرچہ دو کناروں کا کہیں سنگم نہیں ہوتا
مگر ایک ساتھ چلنا بھی تو کوئی کم نہیں ہوتا
بدن سے روح جاتی ہے تو بچھتی ہے صفِ ماتم
مگر کردار مر جائے تو کیوں ماتم نہیں ہوتا
ہزاروں ظلمتوں میں بھی جواں رہتی ہے لو اس کی
چراغ ِعشق جلتا ہے تو پھر مدھم نہیں ہوتا
مداوا آپ ہو جاتا ہے اپنے درد کا اکثر
وہ جن زخموں کا دنیا میں کوئی مرہم نہیں ہوتا
وہ آنکھیں ایک لٹا گھر ہیں جہاں آنسو نہیں رہتے
وہ دل پتھر ہے جس دل میں کسی کا گھر نہیں ہوتا
نصرت جبین