شوقِ کلام تو ہو


شوق کلام لے گیا موسیٰ کو طور پر
میں کتنا بدنصیب ہوں مسجد نہ جا سکا

شوقِ کلام تو ہو

اللہ تعالی نے اپنی مخلوقات کو درجہ بندیوں میں تقسیم فرمایا کر اپنے فضل سے جسے چاہا اپنا بنایا، اور ہمیں نصوص کی روشنی میں فضیلتوں کو جاننے اور ان سے متعلقہ مشروع عبادات کی تعمیل پر پابند کیا، یہ حقیقت میں مسلمان کیلیے فضیلتوں والے اعمال بجا لانے اور بلند درجات پر فائز ہونے کیلیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب ہے، مخلوق میں درجہ بندی کا معیار تقوی اور بندگی پر ہے، ہم جنس افراد کی درجہ بندی بہت زیادہ متفاوت بھی ہو سکتی ہے جیسے کہ آپ ﷺ نے دو آدمیوں کے متعلق فرمایا: (یہ شخص اُس شخص جیسے زمین بھر افراد سے بھی بہتر ہے) بخاری

زمین کے درجے بھی اسی طرح ہیں، چنانچہ اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین مقام عبادت کے مقام ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین جگہیں: مساجد ہیں) مسلم؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ: ان جگہوں پر عبادات اور اذکار کئے جاتے ہیں ، مومن جمع ہوتے ہیں، اور شعائرِ دین پر عمل ہوتا ہے۔ معزز اور محترم ترین مسجد؛ مسجد الحرام ہے، یہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد اور لوگوں کیلیے مینارِ ہدایت ہے:

“بیشک لوگوں کیلیے مکہ میں بنایا گیا پہلا گھر بابرکت اور جہانوں کیلیے باعثِ ہدایت ہے۔ “[آل عمران: 96] اللہ تعالی نے اس مسجد کا حج اور طواف واجب کیا اور اسے مومنوں کا قبلہ قرار دیا، یہاں ایک نماز دیگر مساجد کی نمازوں سے ایک لاکھ گنا بہتر ہے۔

دوسری افضل ترین مسجد آپ ﷺ کی مسجد ہے، مسجد نبوی کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقوی پر رکھی گئی : ( میری اس مسجد میں ایک نماز مسجد الحرام کے علاوہ دیگر مساجد کی نمازوں سے ہزار گنا بہتر ہے) متفق علیہ ، یہ کسی بھی نبی کی تعمیر شدہ آخری مسجد ہے ۔

مسجد اقصی قبلہ اول اور رسول اللہ ﷺ کی جائے اسراء ہے، اس مسجد کی بنیاد مسجد الحرام کے بعد رکھی گئی۔

مساجد بنانا اطاعت اور عبادت ہے، اللہ تعالی نے مسجد بنانے والے سے جنت کا وعدہ فرمایا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جس نے اللہ کیلیے مسجد بنائی، اللہ تعالی اس کیلیے جنت میں ویسا ہی گھر بناتا ہے) متفق علیہ

مسجد جانے والے کو بھی اجر عظیم ملتا ہے ، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اس کیلیے ہر قدم کے بدلے میں نیکی ہے، اللہ تعالی اس کا ایک درجہ بلند اور اس کی ایک برائی مٹا دیتا ہے) مسلم
بلکہ مسجد سے واپس گھر آتے ہوئے بھی اسی طرح نیکیاں لکھی جاتی ہیں، ایک آدمی نے آپ ﷺ سے عرض کیا: “میں چاہتا ہوں کہ میرا مسجد جانا اور مسجد سے واپس گھر آنا دونوں ہی بطورِ ثواب لکھا جائے” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (اللہ تعالی نے تمہارے لیے یہ سب کچھ لکھ دیا ہے) مسلم

مساجد کی جانب زیادہ سے زیادہ چل کر جانا اور مساجد میں نمازوں کا انتظار کرنا رباط [راہِ الہی میں پہرہ] دینے کے مترادف ہے، (جو شخص صبح کے وقت مسجد جائے یا شام کے وقت، وہ جب بھی صبح یا شام کو مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کیلیے جنت میں مہمان نوازی کی تیاری فرماتا ہے) متفق علیہ
(نماز کیلیے جو جتنا دور سے چل کر آئے گا اس کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا، اور امام کے ساتھ نماز ادا کرنے کیلیے انتظار کرنے والے کا اجر اس شخص سے زیادہ ہے جو [تنہا] نماز پڑھ کر سو جائے ) متفق علیہ

مسجدوں کی جانب چل کر جانا بھی گناہوں کی بخشش کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص نماز کیلیے اچھی طرح وضو کرے اور فرض نماز ادا کرنے کیلیے چلے پھر لوگوں کے ساتھ یا جماعت کے ساتھ یا مسجد میں [اکیلے]نماز ادا کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہ بخش دیتا ہے) مسلم

سابقہ امتوں میں بھی مساجد کا مقام بہت بلند تھا، اللہ تعالی نے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کو مسجد الحرام کی صفائی ستھرائی کا حکم دیا-

مساجد میں روح کو سکون اور چین ملتا ہے، اس لیے مساجد میں چیخنا چلانا، لڑائی جھگڑا کرنا یا شور مچانا جائز نہیں ہے- مسجدیں امن و امان اور اطمینان کی جگہیں ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: (جو بھی ہماری مسجد یا بازار میں نیزہ لیکر گزرے تو وہ اس کے پھل سے پکڑ لے تاکہ کسی مسلمان کو زخمی نہ کر دے) متفق علیہ

مسلمانوں پر اس وقت پے در پے فتنے، خونریز جنگیں، تباہی، بربادی، اور دشمن مسلط ہیں یہ چیزیں حقیقت میں مسلمانوں کو اللہ تعالی کی جانب، نمازوں، مساجد اور قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے کی یاد دہانی کرواتی ہیں-

ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

SHOOK E KALAAM TU HO


اپنا تبصرہ بھیجیں