عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے مبحت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
ِانسان نے دُنیا پرمحنت کی اوراس محنت کے نتیجہ میں جوکامیابیاں حاصل کیں، اسی کو اصل کامیابی سمجھ بیٹھااور موت کوبھلا بیٹھاحالانکہ موت ایک حقیقت ہے اوراس سے فرارممکن نہیں، مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے سب سے زیادہ کسی چیزکوفراموش کررکھا ہے تو وہ ہے موت۔ ہم سمجھتے ہیں،جنہیں اپنے ہاتھوں سے دفنایا، موت تو صرف انہی کے لئے تھی،ہم نے تویہاں ہمیشہ رہنا ہے۔
حالانکہ دُنیامیں ہر انسان کے قیام کی ایک مخصوص ومختصر حد مقررہے،جسے مہلت کہا جاتاہے اورہمیشہ رہنے کی جگہ تواس مختصرمدت کے بعد شروع ہوتی ہے۔مہلت اس لئے کہ اسی مختصرمدت اوروقفہ میں کئے گئے اعمال پرآخرت کا انحصارہے ۔مولانارومی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں،کہ دُنیا کی محبت دل میں سمائی ہواوراللہ کی محبت بھی سمائی ہو،یہ دونوں باتیں نہیں ہوسکتیں۔
اس لئے کہ یہ صرف خیال ہے اورمحال ہے اورجنون ہے۔ جب دُنیا کی محبت دل میں سمائی ہو تواللہ تعالیٰ کی محبت کیسے داخل ہوسکتی ہے،اورجب اللہ کی محبت نہیں تواحکام الہی کی ادائیگی میں سستی، کاہلی، دشواری،مشکل ہوگی اورحلال وحرام ،جائزوناجائزکی تمیزختم ہوجائے گی ،پھرکامیابی کامعیار صرف اورصرف مال ودولت بن جائے گا۔ دُنیا میں اس وقت جتنے بھی جرائم اورگناہ ہیں،ان کاسبب دُنیا کی چاہت اور محبت ہے۔
دھوکا بازی،چور بازاری،رشوت ،مال ودولت کا لالچ،بدعنوانی،بدکاری،دُنیاوی لذتوں کے حصول کے لئے جائزوناجائزکی پرواہ نہ کرنا دراصل یہ سب صرف دُنیا کی محبت ہے۔حدیث میں آتا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے:ترجمہ”دُنیاکی محبت ہر گناہ اورمصیبت کی جڑہے۔ ” ( کنز العمال : حدیث 6114 ) ۔ چوری کرنا،خریدوفروخت میں دھوکہ اورفریب کرنا،ڈاکہ زنی کرنا، سودکھانا، امانت میں خیانت کرنا،جوے بازی اورحرام چیزوں کی تجارت، تھانوں میں رشوت دے کرجھوٹے کیس درج کروالئے جاتے ہیں،بے گناہ لوگوں کونہ صرف پریشان کیاجاتاہے بلکہ ان پرہرطرح کے ظلم وستم کئے جاتے ہیں، گواہوں،وکیلوں، ججوں کورشوت دے کرفیصلے اپنے حق میں کروالئے جاتے ہیں۔
ناجائزطریقہ سے مال غصب کرنا موجودہ دور میں عام سی چیز ہو گئی ہے ۔یہ سب دُنیا کی چاہت اور محبت ہی توہے۔ ہمیں اپنی اس غلط فہمی سے نکلناہوگا کہ یہ دُنیا ہی ہمارے لئے سب کچھ ہے۔دُنیا آخری منزل نہیں ،بلکہ عارضی پڑاؤ، منزل تک پہنچنے کے لئے ایک ذریعہ اورسبب ہے۔ اس دُنیا میں رہتے ہوئے اس مہلت کااحساس اورقدرہے تویقیاََ یہ دُنیا ہمارے لئے بہت بڑی نعمت اورہم پراللہ کافضل وکرم ہے۔
اگرمعاملہ اس کے برعکس ہے یعنی دُنیا ہی کوسب کچھ سمجھ بیٹھے ،نشان منزل کے بجائے،اسے ہی منزل جان بیٹھے،باقی سب کچھ بھلا کراسی کے حصول میں مگن ہوگئے توباعث ہلاکت ہے۔یعنی دُنیا کے معاملات اللہ کے احکامات کے مطابق چل رہے ہیں تو دُنیاکامیابی اورہمیشہ کی عزت وسربلندی کاذریعہ ہے،لیکن اگرصرف دُنیاہی دل ودماغ پرمکمل طورراسخ ہوجائے کہ دن رات میں دُنیا کے سوا کچھ اوردکھائی نہ دے تویہ دُنیا نقصان اورخسارہ کا باعث ہے۔
قرآن مقدس میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے ترجمہ : ” اور جو شخص میری یادسے روگردانی کرے گا،وہ دُنیا میں تنگ حال رہے گااورہم اُسے بروز ِقیامت اندھا کرکے اُٹھائیں گے۔وہ پوچھے گا:اے میرے رب!تونے مجھے نابینابناکرکیوں اُٹھایاحالانکہ میں توبیناتھا؟اللہ تعالیٰ جواب دے گا:اسی طرح ہوناچاہئے تھاکیونکہ تمہارے پاس ہماری آیات آئی تھیں لیکن تم نے انہیں بھلا دیا۔
اسی طرح آج تمہیں بھی بھلادیا جائے گا۔”(طٰہ126-124:20) دُنیا کی بہت ہی خوبصورت مثال دیتے ہوئے مولانارومی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ دُنیا کے بغیرانسان کاگزارہ بھی نہیں ہے۔اس لئے کہ اس دُنیا میں زندہ رہنے کے لئے بے شمارضررورتیں انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں اورانسان کی مثال کشتی جیسی ہے اوردُنیا کی مثال پانی جیسی ہے۔جیسے پانی کے بغیرکشتی نہیں چل سکتی۔
اگرکوئی شخص خشکی پرکشتی چلاتاہے تونہیں چلے گی،اسی طرح انسان کوزندہ رہنے کے لئے دُنیا ضروری ہے۔انسان کوزندہ رہنے کے لئے پیسہ چاہئے،کھانا چاہئے ،پانی چاہئے ، مکان چاہئے،کپڑاچاہئے اوران سب چیزوں کی اس کوضرورت ہے۔یہ سب چیزیں دُنیا میں ہیں لیکن جس طرح پانی کشتی کے لئے اس وقت تک فائدہ مندہے جب تک پانی کشتی کے نیچے ،دائیں اوربائیں طرف ہے،اس کے آگے پیچھے ہے وہ پانی اس کشتی کوچلائے گا۔
لیکن اگروہ پانی دائیں بائیں کے بجائے کشتی کے اندرداخل ہوگیا تو کشتی ڈوب جائے گی ،تباہ ہوجائے گی۔ اسی طرح دنیاکاسازوسامان جب تک ہمارے چاروں طرف ہے توپھرکوئی ڈرنہیں ہے اس لئے کہ سازوسامان ہماری زندگی کی کشتی کوچلائے گا۔لیکن جس دن دُنیا کا یہ سازوسامان ہمارے دل کی کشتی میں داخل ہوگیا،اس دن ہمیں ڈبودے گا۔بالکل اسی طرح جیسے پانی کشتی کے اردگردہوتوکشتی چلاتاہے اوردھکادیتاہے اگروہ پانی کشتی کے اندر داخل ہوجاتاہے تو کشتی ڈبودیتاہے۔
اللہ کے احکامات سے غفلت اورروگردانی کے سبب نقصان وخسارہ اورناکامی صرف آخرت کی ہی نہیں بلکہ دُنیا کی ناکامی اورنامرادی بھی ہے۔اللہ کی یاد سے غافل ، احکام الہی سے روگردانی اوردُنیا کی تمنا میں اندھا ہوجانے سے تنگی گھیرلیتی ہے اورروزی کی کشادگی کے باوجودانسان کا اطمینان اورسکون چھین لیا جاتا ہے،گناہوں اوربرائیوں کی وجہ سے موجودنعمتیں چھین لی جاتی ہیں اورآنے والی نعمتیں روک لی جاتی ہیں۔
آج پورے عالم میں صرف مسلمان ہی ناکام اورشکست خوردہ کیوں ہے؟آج ہرطرف اقوام غیرکا ہی غلبہ کیوں؟آج مسلمانوں کے پاس مال ودولت کے انبار،افواج،اسلحہ سمیت ہرقسم کے وسائل کی بہتات کے باوجودمسلمان ہی ہرطرف کفار کے ظلم وزیادتی کا شکارہیں۔کشمیر وفلسطین ، افغانستان، عراق، لیبیا ، شام سمیت تمام مسلم ممالک کسی نہ کسی شکل میں (چاہے وہ جارحیت ہو،سیاسی جدوجہد یاانسانی حقوق کامعاملہ ہو )کفارکے جبراورغلبہ کاشکار ہیں۔
نبی کریم ﷺکے ارشاد کامفہوم ہے، میری اُمت پرایک ایسا وقت آئے گا،کفارمیری اُمت پربھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے،صحابہ کرام نے پوچھا کیاتب ہم تعدادمیں کم ہوں گے،آپ ﷺ نے فرمایانہیں تعدادمیں بہت ہوں گے،لیکن موت کے خوف اوردُنیا کی محبت میں مبتلاہوں گے۔ بدقسمتی سے ہرخاص وعام، بظاہر دین دار یادُنیادار،عوام ،رعایا،حکمران طبقہ سب کے سب دُنیا کی محبت میں گرفتار،دُنیا اوردُنیا کے مال کادفاع کرتے نظرآئیں گے۔
ہم یہ بات بھول گئے ہیں کہ دُنیا کی محبت سے اللہ نہیں ملتا،لیکن اللہ کی محبت سے دُنیا وآخرت دونوں سنورجاتے ہیں۔اسلام میں کہیں بھی ترک دُنیا کا ذکرنہیں، بلکہ ترک دُنیا کوسخت ناپسندفرمایا گیا ہے ۔ لہٰذادُنیا میں رہتے ہوئے،معاملات دُنیاچلاتے ہوئے،دُنیاکماتے ہوئے، تجارت،زراعت، حکومت کے ہوتے ہوئے آخرت کو فراموش کئے بغیراس دُنیا کے سارے معاملات کے ساتھ آخرت کی بھلائی اورکامیابی بھی پیش نظررہے۔ دُنیا آخری منزل نہیں بلکہ یہ عارضی پڑاؤاورمہلت ہے تاکہ اس میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کی جائے۔
یہ علامہ محمد اقبال کا شعر نہیں
یہ اشعار سر فراز بزمی کے ہیں اور آپ نے علامہ اقبال سے منسوب کر دئیے۔ ایسا کرنا قاریین اکرام کو علمی گمراہی کی جانب گامزن کرنے کے مترادف ہے۔۔