بعض رشتوں کا نعم البدل نہیں ملتا
انسانی زندگی میں انسان کے باہمی رشتوں و تعلقات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں انسانی زندگی میں رشتوں کو کلیدی اہمیت حاصل ہے رشتے کئی قسم کے ہوتے ہیں جن میں فطری قانونی اور روحانی رشتے شامل ہیں سب سے پہلے بنی نوع انسان کا انسانیت کے رشتے سے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق قائم ہے جس کے باعث ایک انسان دوسرے انسان کے لئے خود میں کشش محسوس کرتا ہے اور یہی کشش انسان سے انسان کے مزید رشتے یا تعلقات استوار کرنے کا باعث بنتی ہے یہ قدرت کا نظام بھی ہے اور انسانی زندگی کا تسلسل قائم رکھنے کے لئے انسان کی فطری ضرورت بھی-
فطری رشتے وہ رشتے ہوتے ہیں جنہیں عرف عام میں خون کے رشتے یا خاندان کے رشتے کہتےہیں- ان رشتوں میں ماں باپ بہن بھائی اور والدین شامل ہیں- پھر قانونی رشتے یعنی نکاح کے ذریعے بیوی اور شوہر کا رشتہ اور اس رشتے کی نسبت سے سسرالی رشتے شامل ہیں-پھر آتے ہیں روحانی رشتے یا تعلقات کا تعلق بالترتیب اساتذہ ہم جماعت دوست اور ہمسایوں وغیرہ سے جبکہ انہی رشتوں میں نظریات و عقائد کی ہم آہنگی سے قائم ہونے والے تعلقات یا رشتے بھی شامل ہیں-
کچھ رشتے بہت انمول ہوتے ہیں اور انکا نعم البدل کبھی بھی نہیں مل سکتا ان رشتوں میں ایک رشتہ ماں کا ہے -’م‘ سے محبت، ’الف‘ سے اچھائی اور ’ن‘ سے نگہداشت کا نام ماں ہے – اںقدرت کی تخلیق کا ایساشاہکار ہے کہ چاہے امیر ہو یاغریب اس کی صفات لاثانی ہیں-ماں ایک ایسی نعمت ہے جسکا کویُ نعم البدل نہیں ہے ۔ ہر انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب،قوم ولسان سے تعلق رکھتاہو اسے ماں کے بغیرچین نہیں آتا۔اللہ تعالیٰ کی خُدائی،محبت، شفقت، ایثا راور قربانی کا جذبہ صرف ماں کی ممتا سے ملتا ہے- اورایسا ہی دوسرا رشتہ باپ کا ہے- وہ اپنی زندگی کاانمول حصہ اولاد کی نذر کر دیتا ہے – اپنی اولاد کی خوشیوں کی خاطر قربانی دیتا ہے-
کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو ٹوٹ کر بھی ٹوٹ نہیں پاتے اور کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو جڑ کر بھی جڑ نہیں پاتے نئے رشتے بنانے سے پہلے انسان کو یہ سوچ لینا چاہئیے آیا کہ وہ نئے رشتوں کے تقاضے پورے کر سکتا ہے یا نہیں اس لئے پہلے بنے ہوئے رشتوں کو نبھانا سیکھے پھر نئے رشتے بنانے کا سوچے جو شخص ہنے بنے بنائے یعنی فطری و قدرتی رشتوں کو خوش اسلوبی سے نبھانے کے قابل نہ ہو وہ کیسے نئے قانونی یا روحانی طور پر استوار شدہ رشتوں کی ذمہ داری نبھا سکتا ہے –
–