وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے
لوگ بھی، رشتے بھی
احساس بھی
اور کبھی کبھی ہم خود بھی
انسان بھی کتنا عجیب ہے، خود ہی رشتے بناتا ہے، پھر اُن کو توڑ بھی دیتا ہے۔ پھر خود ہی دوبارہ اُن ٹوٹے ہوئے رشتوں کہ جوڑنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔رشتے دھاگہ کی طرح ہوتا ہے، ذرا سی زور آزمائی کی اور یہ کر چی کرچی ہو کر چار سو بکھر جاتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے شیشہ ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن اُن رشتوںمیں تضاد بھی تو ہم خود ڈالتے ہیں۔ کوئی ہمیں یہ مشورہ تو نہیں دیتا کہ ہم بلا وجہ ناراضگی کے راستے کو اپنا لیں اور اِس کوشش میں ہم خود ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔
رشتے احساس کی ڈور سے بندھے ہوتے ہیں جو اتنی مظبوط ہوتی ہے کہ ہر آنے والے نئے رشتے کو پرولیتی ہے اور اتنی کمزور ہوتی ہے کہ جب ٹوٹتی ہے تو رشتوں سمیت بکھر جاتی ہے.بعض اوقات خونی رشتے خون آلودہ کر دیتے ہیں اور بناوٹی رشتے بنا دیتے ہیں.خونی رشتے خاردار جھاڑی کی طرح ہوتے ہیں جو سائےکےساتھ ساتھ زخم بھی دیتی ہے اور بناوٹی رشتے موسم کی طرح ہوتے ہیں جووقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں.انسانی ترقی میں سب سے بڑا سہارا بناوٹی رشتے اورسب سے بڑی رکاوٹ خونی رشتے ہوتے ہیں.خونی رشتے سونے کی طرح ہوتے ہیں اگر ٹوٹ بھی جائیں تو جڑ سکتے ہیں اوربناوٹی رشتے ہیرے کی طرح اگر ٹوٹ جائیں تو جوڑنے سے بھی دراڑ باقی رہ جاتی ہے.یہ دونوں رشتے انسانی زندگی میں کبھی غموں کا بادل تو کبھی خوشیوں کا ساون لے کر آتے ہیں.بناوٹی رشتے موسمی چادر کی طرح ہوتے جو موسم کےحالات سے بدلی جا سکتی ہے لیکن خونی رشتےکفن کی طرح ہوتے ہیں جو ایک ہی بار اوڑھا جاتا ہے.خونی اور بناوٹی رشتوں میں مشترک قدر خون کی ہوتی ہے خونی رشتے خون لے کر بنتے ہیں اور بناوٹی رشتے خون دے کر بنتے ہیں.خونی رشتوں کی آبیاری جسم سے ہوتی ہے اور بناوٹی رشتوں کی شجر کاری خون سے.خونی رشتے نسل بڑھاتے ہیں اور بناوٹی رشتے زندگی.خونی رشتے نام دیتے ہیں اور بناوٹی رشتے نام بلند کرتے ہیں-