سامان مختصر رکھیے


جانے کس وقت کوچ کرنا ہو
اپنا سامان مختصر رکھیے

سامان مختصر رکھیے

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آب رضی اللہ تعالیٰ جب کبھی کسی قبر کے پاس رکتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہو جاتی۔ آپ سے کہا گیا کہ جنت اور دوزخ کے زکر کے وقت اتنا نہیں روتے جتنا یہاں روتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی اس سے نچات پا گیا تو اگلی منزلیں اس سے آسان ہیں۔ اور اگر نجات نہ پائی تو اگلی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے قبر سے زیادہ بھیانک منظر نہیں دیکھا (جامع ترمذی)۔

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں آنے کی ترتیب بنائی ہے، باپ، بیٹا پھر پوتا لیکن جانے کی کوئی ترتیب نہیں۔ باپ زندہ ہے بیٹے کو اجل نے اچک لیا۔ جوان جسے زندہ رہنے کی تمنا ہے اسے موت پکڑتی ہے بوڑھا جو موت مانگتا ہے موت اس سے دامن بچاتی ہے جانے کی ترتیب اسلئے نہیں رکھی گئی تاکہ اللہ کو یاد رکھیں اور دنیا میں دل نہ لگائیں اور آخرت کے سفر کی تیاری اور فکر رکھیں۔ لیکن اصل سفر سے غافل ہو کر ہم نے پیسے کو مسئلہ بنا لیا ہے اور سفر آخرت کو بھول ہی گئے۔

آپ نے کبھی کسی کو مرنے والے کیلیے فرنیچر تیار کرتے دیکھا؟ کسی نے لمبا چوڑا بینک بیلنس ساتھ دفنایا ہے ؟ دفن کرنے سے پہلے کوئی قیمتی جوڑا پہنا ہے ؟ کوئی میوزک کا سامان، کوئی فلمیں ؟ اسکی قابلیت کے سرٹیفیکیٹ ؟ اگر نہیں تو پھر آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگوں نے قرآن مجید پڑھا پڑھوایا، کچھ اسکے حق میں دعا کی کروائی تو کیا ثابت ہوا کیا یہ نہیں کہ اصل دولت تو یہی تھی۔ تو سوچیں تو سہی ہمارے کیا کام آئے گا اور ہم کس چیز کی محنت کر رہے ہیں ؟ جس دولت کیلئے اس نے ساری زندگی محنت مشقت کی اس نے آخر اس کی کیا مدد کی ؟ بھائیوں ہمارے پاس ابھی بھی وقت ہے ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

ہم کتنے نادان ہیں کس چیز کی محنت کر رہے ہیں جو عنقریب صفر ہو جائے گی کتنے بڑے بڑے حساب کتاب کرنے والے اور کتنے بڑے بڑے بزنس مین معیشت دان، سمجھ دار اور ہوشیار اور گورنر اور لاٹ صاحب اور پتہ نہیں کون کون، ساری محنت کس چیز کے لیے کر رہے ہیں (اگر آخرت اور ضروری چیزوں سے زیادہ ) کر تو کس لیے اس لیے کہ ہمارے مرنے کے بعد سب ہمارے لیے صفر اور آخرت کے لیے کئے گئے کام ہماری اصل مال و دولت کاش ہم ان ترجیحات کو سامنے رکھیں تو شائد ترجیحات بھی کچھ بدل جائیں۔ بھائیوں دنیا اور دنیا داری چھوڑنے کے لیے نہیں کہا جارہا مگر جتنا دنیا کو وقت و ارادے دے رہے ہو کیا اپنی آخرت اور اپنے اعمال کو بھی اتنا وقت و توجہ دی ہے-

کیا ہم ایسے نالائق مسافر ہیں کہ جس کا سفر طویل ہے اور اسکے پاس سامان بھی زیادہ نہیں اور اسکو یہ فکر بھی نہیں کہ اتنا لمبا سفر بغیر مناسب اور ضروری سامان کے کیسے کٹے گا دنیاوی سفر تو کراچی سے لاہور کا بھی ہو تو کتنا سامان لادنے کے چکر میں لگ جاتے ہیں کہ یہ بھی لے لو اور وہ بھی لے لو اور پتہ بھی ہوتا ہے کہ سامان اگر ساتھ نہیں لے گئے تو کئی چیزیں رستے سے مل جائیں گیں مگر ایسے سفر کے لیے کوئی اہتمام نہیں کہ جس میں سفر سے متعلق سامان نا ہونے پر رستے سے کچھ نہیں ملنے والا اور نا کوئی زاد راہ ملے گی رستے سے اور نا کوئی ہمسفر ملے گا-

Janey Kis Waqt Kouch Karna Ho
Apna Samaan Mukhtasir Rakhiye


سامان مختصر رکھیے” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں