عبادت کی کثرت پر غرور نہ کرو کیونکہ
زیادہ عبادت کے باوجود ابلیس کا کیا حال ہوا
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی تخلیق سے پہلے فرشتے اور جن پیدا کئے۔ انسان کی تخلیق جب فرمائی تو ملائکہ کو حکم کیا کہ وہ انسان کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں۔ ابلیس اگرچہ جن تھا اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتا لیکن اس اجتماع میں وہ بھی شامل تھا۔سارے ملائکہ نے حکم خداوندی کی تعمیل کی لیکن ابلیس نے سجدہ نہیں کیا۔ اس نافرمانی کی وجہ کیا تھی؟ ابلیس آگ سے پیدا کیا گیا تھا اور انسان کو مٹی سے تخلیق کیا گیا۔اسے یہ گھمنڈ لاحق ہوا کہ آگ، مٹی سے درجے میں بلند ہے۔اسلئے بلند مخلوق ہوکرپست مخلوق کے سامنے سجدہ کرنا اسے گوارا نہیں ہوا۔ اس نافرمانی کی سزا اسے کیا ملی؟ قیامت تک کیلئے ملعون ٹھہرا۔
اس واقعہ کی تفصیل قرآنِ کریم میں جگہ جگہ ملتی ہے مثلاً سورة بنی اسرائیل میں فرمایا۔”اور یاد کرو جب ہم نے ملائکہ سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا۔ اس نے کہا۔”کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟“ پھر وہ بولا۔”دیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ اسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کرڈالوں، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔
‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔”اچھا تو جا، ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں ، تجھ سمیت ان سب کیلئے جہنم ہی بھر پور جزا ہے۔تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلالے۔ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا، اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس۔۔اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔۔یقینا میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا، اور توکل کیلئے تیرا رب کافی ہے۔“
(بنی اسرائیل ۶۱۔۶۵)
شیطان کا غرور میں مبتلا ہو جانا، تاریخ انسانی کی اس قبیح ترین جرم کا پہلا آمنا سامنا تھا۔شیطان نے چونکہ اللہ سے مہلت ہی اسی لئے مانگی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو صراط المستقیم سے پھسلادے اسلئے اس نے اپنی یہ خبیث خصلت انسان کے اندر بھی سرایت کردی ہے۔نمرود و فرعون آخر کس مرض میں مبتلا تھے؟ وہ یہی غرور تھا جس نے ان کو اس وہم میں برباد کردیا کہ ہم ناقابل تسخیر ہیں لیکن ”غرور کا سر ہمیشہ نیچا!“
“عبادت کی کثرت پر غرور نہ کرکیونکہ زیادہ عبادت کے باوجود ابلیس کا کیا حال ہوا” یہ فرمان حضرت حاتم اصم رحمتہ اللہ علیہ کا ہے- اور یہ بے بھی فرمایا دیکھو ابو لہب اور ابو جہل نے حضور محمد کو دیکھا، صحبت بھی تھی، قرابت بھی تھی مگر ان دونوں کو کچھ نفع حاصل نہ ہوا- غرور کسی بھی طرح کا ہو خاک میں ملا دیتا ہے- غرور چونکہ ایک شیطانی صفت ہے اسلئے یہ انسان سے اس کی انسانی صفات چھین لیتا ہے۔دوسروں کو حقیر سمجھ کر ان سے بے اعتنائی اور کنارہ کشی اختیار کرنا اس کا پہلا لازمی نتیجہ ہے۔
تکبر صرف اللہ کو زیب دے سکتا ہے کیونکہ اس کی صفات ازلی ہیں، کوئی ان کو چھین نہیں سکتااور اس کے کمالات کو کوئی زوال نہیں۔ بندے تکبر میں گھر جائیں تو ابدی عذاب میں مبتلا ہونگے۔چنانچہ اللہ کی قسم کھاکر فرمایا کہ وہ شخص جنت میں داخل ہو ہی نہیں سکتا جس میں رتی برابر بھی غرور ہو! یہاں تک کہ لباس سے بھی اگر غرور کا اظہار ہوجائے تو اس پر زبردست وعید فرمائی۔
حضرت عبداللہ بن عمرروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا۔ ”اللہ اس شخص کی طرف قیامت کے روز نگاہ نہیں کرے گا جو اپنا چوغہ تکبر میں پیچھے سے زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلے۔“ حضرت ابو بکر نے عرض کیا۔” میرے چوغہ کا ایک سرا لٹک ہی جاتا ہے جب تک کہ میں اس کے بارے میں بے حد احتیاط نہ کروں۔“ تو آپ نے فرمایا۔ ”لیکن آپ ایسا تکبر کی بنا پر نہیں کرتے ہیں۔“ (صحیح بخاری)