سب سے بڑی قوت
قوتِ برداشت ہے
صدر ایوب پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر تھے، وہ روزانہ سگریٹ کے دو بڑے پیکٹ پیتے تھے روز صبح ان کا بٹلر سگریٹ کے دو پیکٹ ٹرے میں رکھ کر ان کے بیڈ روم میں آجاتا اور صدر ایوب سگریٹ سلگا کر اپنی صبح کا آغاز کرتے تھے وہ ایک دن مشرقی پاکستان کے دورے پہ تھے وہاں ان کا بنگالی بٹلر انہیں سگریٹ دینا بھول گیا ۔ جنرل ایوب کو شدید غصہ آیا اور انہوں نے بٹلر کو گالیاں دینا شروع کر دیں جب ایوب خان گالیں دے دے کر تھک گئے تو بٹلر نے انہیں مخاطب کر کے کہا
” جس کمانڈرمیں اتنی برداشت نہ ہو وہ فوج کو کیا چلائے گا، مجھے پاکستانی فوج اور اس ملک کا مستقبل خراب دکھائی دے رہا ہے”
بٹلر کی بات ایوب خان کے دل پر لگی، انہوں نے اسی وقت سگریٹ کو ترک کر دیا اور پھر باقی زندگی سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا، دینا میں جتنے بھی لیڈرز ہوں، سپہ سالار ہوں، حکمران ہو ،سیاستدان ہو یا عام آدمی بھی ان کا اصلی حسن ان کی قوتِ برداشت ہوتی ہے ۔
برداشت اور عدم برداشت کا تعلق اِخلاقی جذبے سے کہیں بڑھ کر دینی جذبے کے ساتھ ہے۔اسی طرح عدم برداشت کا دائرہ صرف دینی غیرت وحمیت کے ساتھ ہے ۔ذاتی پسند ناپسند اور انا کے ساتھ نہیں ۔
برداشت کاراستہ خالصتاً الی اللہ ہوتا ہے اس لئے مع اللہ ہوتاہے ۔ ہمارے دینی بھائیوں اور دینی جماعتوں میں برداشت کا جوہر سب سے زیادہ ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ برداشت کا تعلق صبر کے ساتھ ہے اور اہلِ ایمان کو صبر اور صلوٰۃ سے مدد لینے کا حکم ہے۔ عدم برداشت بے صبری کا مظاہر ہ ہے اور بے صبری صرف دنیا دار کا خاصہ ہے۔
رسولِ رحمت ﷺجس دین کے ساتھ مبعوث ہوئے ‘وہ دینِ رحمت ہے۔ دینِ رحمت میں داخل ہونے والا لامحالہ مخلوقِ خدا کے حق میں رحم دل ہو جاتا ہے۔ رحم کیا ہے؟ قطبِ ارشاد حضرت واصف علی واصفؒ کا فرمان ہے :’’رحم اُس فضل کا نام ہے جو اِنسانوں پر اُن کی خامیوں کے باوجود کیا جائے‘‘۔
اگر ہم اپنے لیے خدا سے رحم کے طلبگار ہیں تو مخلوقِ خدا کیلئے رحمت کا سائبان بنیں ۔یعنی دوسروں کی خامیوں پر اپنی برداشت کی چادر ڈالیں۔اپنے عفو کی عبا میں دوسروں کے عیوب چھپانا ‘ ستّار العیوب ذات کے قرب کا باعث بن سکتا ہے۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ مکہ و مدینہ میں جہالت و تاریکی اپنے عروج پر تھی، لوگ ایک دوسرے کے دشمن اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار دینا یہاں کا معمول تھا۔نبی محترم ﷺ نے ان میں سب سے پہلے قوت برداشت پیدا کی جس کے بعد اجڈ، جاہل اور گنوار لوگ آنے والے دور کے بہترین لوگ قرار پائے یہاں تک کہ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اپنے اللہ سے۔