دُکھ کی انتہا – جب آپ کسی پہ اندھا اعتبار کریں


جب آپ کسی پہ اندھا اعتبار کریں
اور وہ ثابت کر دے کے آپ واقعی اندھے ہیں

دُکھ کی انتہا



رشتہ اعتماد سے ہوتا ہے، اعتماد رشتہ سے نہیں- اعتماد کے لئے رشتے بنائے جاتے ہیں، ادھور ے رشتے مکمل رشتوں پر ہم اعتماد رکھتے ہی نہیں۔ دنیا میں سب سے بڑا رشتہ اعتماد کا ہی ہے۔ اگر اعتماد کا عنصر ہے تو سارے رشتے اور معاملات ٹھیک ہوں گے اور اگر اعتماد نہیں ہے تو تمام رشتے بے فائدہ ہیں۔ چاہے کویُ بھی رشتہ ہو، خاندانی ہو کاروباری ، سفارتی ہو یا ریاستی، ان سب کی بنیاد صرف اعتماد ہی ہے- مجبوری اور مطلب میں رشتے پائدار اور محبت کے رشتے نہیں ہوتے بلکہ عارضی اور مطلبی ہوتے ہیں- اور ایسے رشتے بہت جلد ختم ہو جاتے ہیں- اعتماد کا رشتہ ہم مزاجوں میں قائم ہوا کرتا ہے۔ غیر مزاج غیر ہی ہوا کرتے ہیں۔ گھروں میں جب مزاج یکساں نہ رہے تو فاصلے اندر ہی اندر پیدا ہو جایا کرتے ہیں۔

کچھ لوگ اکثر ہمارے ساتھ جھوٹ بول جاتے ہیں۔ مگر ہم اُنکے جھوٹ کو جھوٹ جانتے ہوئے بھی اعتماد کرتے ہیں۔ ہمارے لیئے اُنکا جھوٹ بھی سچ ہے اور سچ بھی سچ ہے۔ جھوٹ اُن سے بولا جاتا ہے، جن پہ اعتماد نہ ہو۔ جو تعلق ہمیشہ کے لیئے قائم کیا جا رہا ہو۔ اُس میں کوئی جھوٹ بول لے، فریب کر لے، آخر جب اُس کو اِک دِن آخری اُمید کی کرن کے واسطے واپس لوٹنا ہے تو وُہ واپسی دِل کےدُکھ کے ساتھ، سچائی سے بھرپور ہوگی۔ نہ صرف سچائی کی حقیقت، خلوص کی تاثیر بھی موجود ہوگی۔ اُس روز اعتماد ہوگا اندھا اعتماد، آدھا اعتماد نہیں۔ تمام سابقہ جھوٹ ایک بڑے سچ کے سامنے بےمعنی ہو جائیں گے۔ لوگ فریب دے لیں تو بھی غرض نہیں۔ آخر اِک دن جب اعتبار کی ضرورت ہوگی۔ تو وُہ اعتماد کا درجہ اُنھی کو حاصل ہوگا –

اعتماد صرف برداشت کرلینا نہیں، قول و اقرار کا ہر حال تکمیل کی منزل تک پہنچنا بھی ہے۔ قابل اعتماد شخص commited بھی ہوتا ہے۔ وُہ ہر حال اپنے قول کو نبھاتا ہے۔ محبت دِل سے، اعتماد دِل سے اور اللہ پر یقین بھی دِل سے ہوتا ہے۔

کچھ لوگ ہر اِک پر اعتماد کرتے ہیں مگر لوگ ٹھیس پہنچا دیتے ہیں۔ چند افراد ایسے بھی ہیں جو بہت سوں پہ اپنا اعتماد قائم رکھتے ہیں۔ دوسروں پر سے بھروسہ اُٹھ جانے پر بھی اُنکی ذات پر اعتماد کا بھرم قائم رکھتے ہیں۔ وُہ دوسروں پر اپنی ذات کا اعتماد ہر حال قائم رکھتے ہیں۔ وُہ رشتوں کو اعتماد کی ڈوری سے پروتے ہیں۔

اعتقاد ہماری ذاتی چیز اور دوسروں سے مخفی ہیں مگر عمل ظاہری اور دوسروں کے دیکھنے کی چیز ہے اور ہمارا ایمان اور اعتقاد کتنا ہی عالی شان اور بے مثال نہ ہو جب تک ہمارے عمل میں نہ بدلے بے فاءدہ ہے نہ صرف ہماری اپنی زات کے لیے بلکہ اور دوسروں کے لیے بھی۔ دوسرے لوگوں کو ہمارے ایمان یا اعتقاد سے کوی سروکار نہیں ہے ان کو اگر سروکار ہے تو ہمارے معاملات سے اگر ہمارے معاملات ٹھیک ہیں تو ہمارا اعتماد قاءم ہو گا اور ہمارے رشتے مظبوط ہونگے اور ہم ہر شعبہ زندگی میں کامیاب ہونگے۔



DUKH KI INTEHA
Jab Ap Kisi Pe Andha Aitbar Kren
Aur Vo Sabit Kr Day Keh Ap Waqe Andhay Thay


دُکھ کی انتہا – جب آپ کسی پہ اندھا اعتبار کریں” ایک تبصرہ

Leave a Reply to سجاول علی ارشاد احمد Cancel reply