تعلیم کا مقصد نوکری کا حصول


جہاں تعلیم کا مقصد نوکری کا حصول ہو
اُس معاشرے میں نوکر بیدا ہوتے ہیں رہنما نہیں

حدیث نبوی ﷺ کی رو سے تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دین میں تعلیم حاصل کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ چونکہ قرآن مجید کی روسے عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہو سکتے اور عالم کا ساری رات سونا بھی جاہل کی رات بھر کی عبادت پر بھاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم انسان کو انسان بناتی ہے اور تعلیم سے ہی انسان اپنی پیدائش کا مقصد جان سکتا ہے۔
ترقی کی بلندیوںکو چھونے والی اقوام نے تعلیم کو ہی اپنا زینہ بنایا۔ جن اقوام نے تعلیم کو زیور سمجھا وہ سنورگئیں، جنہوں نے فرض سمجھا وہ حق تلفی جیسے گناہ سے بچ گئیں، جنہوں نے ہتھیار سمجھا وہ جیت گئیں اور جن اقوام نے اس کو ضرورت بنا لیا وہ کبھی ضرورت مند نہ ہوئیں۔ صدیوں قبل دنیا بھر کے تقریباً تمام ممالک، اقوام اور معاشرے تعلیم کی افادیت و اہمیت سے بخوبی واقف ہو چکے تھے، لیکن اس کے باوجود تعلیم کا حقیقی حصول تاحال ایک سوال ہے۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے تعلیم حاصل کرنے کا مقصد تعلیم برائے تعلیم نہیں بلکہ تعلیم برائے ملازمت سمجھ لیا ہے۔ آج اگر تعلیم کی بات کی جائے تو ساتھ میں یہ بھی اکثر پوچھا جاتا ہے کہ اس کے بعد کون سی نوکری ملے گی، جیسے علم تو صرف رہ ہی نوکری کے لئے گیا ہے۔ ملازمت کا حصول تعلیم کے مقصد کا ایک پہلو ضرور ہے، لیکن یہ ’’کُل‘‘ نہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ

’’جو علم کو دنیا کمانے کے لیے حاصل کرتا ہے علم اس کے قلب میں جگہ نہیں پاتا‘‘۔

اس کی سب سے بڑی وجہ ایک اور ہے وہ ہے بڑھتی ہوئی بیروزگاری۔ کچھ بیروزگار گریجویٹس تعلیم کو ایک مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے حاصل شدہ ذہنی صلاحیتوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن پھر بھی تعلیم کو سخت مقابلے کے ماحول میں جاب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ نتیجتاً سیکھنے کا عمل غیر اہم بھی نہیں ہوتا، تعلیمی اسٹریٹجی کا دوسرا حصہ سرکاری ملازمتوں کے لیے اپلائی کرنا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس ریس میں مارکس اور ڈگریاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ سخت مقابلہ صرف نام، اچھی تنخواہ، اور مراعات حاصل کرنے کے لیے ہے۔
ڈگریاں رکھنے والے بیروزگار نوجوانوں کو یہ سسٹم سرکاری نوکریوں میں رکھتا ہے، جبکہ اعلیٰ تربیت یافتہ پروفیشنلز بشمول ڈاکٹروں اور انجینئروں کو اعلیٰ بیوروکریسی کی طرف بھیج دیتا ہے۔ لیکن تعلقات، رہنمائی، تربیت، اور طاقت کے بغیر تعلیم ان کے اونچے طبقے میں شامل ہونے کے خواب پورا کرنے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتی۔
تعلیم کے کئی نظاموں کی موجودگی اور اقتصادی ناہمواری کی وجہ سے پیدا ہوئی عدم مساوات پاکستان میں مخصوص شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ مسئلہ ترقی کی کمی کا نہیں ہے، بلکہ طبقے اور طاقت کا ہے جو لوگوں کو ملازمت فراہم کرتا ہے۔

Jahan Taleem Ka Maqsd Nokri Ka Hsool Ho
Us Muashray Mein Nokkr Paida Hotay Hen Rehnuma Nahi


اپنا تبصرہ بھیجیں