اتوں لے کے تھلے ویکھاں
تیرے جُسّے ولّے ویکھاں
کیہڑی شے دی آکڑ بندیا
کی اے تیرے پلّے ویکھاں
پنجابی کی ان اشعار میںشاعر انسان کواس کے غرور اور اسکے فانی ہونے کے بارے میں بتا رہا ہے کہ انسان جتنا مرضی طاقتور بن جائے اتنا ناقص منصوبہ ساز ہے اور اپنے ہر فیصلے میں موت کو کبھی یاد نہیں کرتا- خود کو بڑی چیز سمجھنے والا یہ بھول جاتا ہے کہ وہ فانی ہے- ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرنا صرف اسی کو تھا جس کو دفنا دیا ہے ہم اپنی موت کو بھول چکے ہیں-
یہاں مائیکل جیکسن کا واقعہ دہرانا غلط نہ ہو گا جس نے جینے کےلئے کیاکیا نہیں کیا- اس نے امریکہ اور یورپ کے پچپن چوٹی کی پلاسٹک سرجری کی خدمات حاصل کیں یہاں تک کہ 1987 تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت جلد نقوش اور حرکات وسکنات بدل گئیں ۔سیاہ فام مائیکل کی جگہ گورا چٹا اور نسوانی نقوش کا مالک ایک خوبصورت مایئکل جیکسن دنیا کے سامنے آگیا ۔ 1987 میں ـ بیڈ کے نام سے اپنی البم جاری کی یہ گورے مائیکل جیکسن کی پہلی البم تھی یہ البم کامیاب ہوئی اور اس کی تین کروڑ کاپیاں فروخٹ ہوئیں اس کے بعد اس نے اپنا پہلا سولو ٹور شروع کیا وہ ملکوں ملکوں شہر شہر گیا موسیقی کے شوز کیے اور ان شوز سے کروڑوں ڈالر کمائے یوں اس نے اپنی سیاہ رنگت کو بھی شکست دے دی۔
اس کے بعد مائیکل جیکسن نے اپنے ماضی کو بھولنا شروع کر دیا اس نے اپنے خاندان سے سب تعلقات توڑ لیے- اس نے اپنے ایڈریسز تبدیل کر لیے اس نے کرایے پر گورے ماں باپ بھی حاصل کر لیے پھر اپنے تمام پرانے دوستوں سے بھی چھوڑ دیا ۔ان تمام اقدامات کے دوران جہاں وہ اکیلا ہوتا چلا گیا اور ایک مصنوعی زندگی جینے لگا اس نے خود کو مشہور کرنے کے لیے ایلوس پر بیلے کی بیٹی لیزا میری سے شادی بھی کر لی- اور مصنوعی طریقہ تولید کے ذریعے ایک نرس ڈیبی رو سے اپنا پہلا بیٹا پرنس مائیکل بھی پیدا کر لیا ڈیبی رو سے اس کی بیٹی پیرس مائیکل بھی پیدا ہوئی اس نے بہت حد تک اپنے ماضی سے جان چھڑالی۔ اس نے یورپ میں اپنے بڑے بڑے مجسمے بھی لگوا لیئے-
اب اسکی نفرت یا خواہش کی باری تھی وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا -وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھاوہ جراثیم اور بیماریوں سے بچنے کے لیے دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملاتا تھا وہ اپنے مداحوں سے ملنے سے پہلے منہ پر ماسک چڑھا لیا کرتا تھا اور مخصوص خوراک کھاتا تھا اور اس نے مستقل طور پر 12 ڈاکٹر اپنے چیک اپ کے لیے رکھے ہوئے تھے جو روزانہ اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتے تھے اور روزانہ لیبارٹری ٹیسٹ بھی ہوتا تھا اور اسے روزانہ ورزش بھی کرواتا تھا اس نے اپنے لیے متبادل پھیپھڑوں ،گردوں ،آنکھوں ،دل اور جگر کا بندوبست بھی کر رکھا تھا یہ ڈونر ز تھے جن کے تمام اخراجات وہ اٹھا رہا تھا بوقت ضرورت ان لوگوں نے اپنے اعضاء عطیہ کر دینا تھے اسے یقین تھا کہ وہ ایک سو پچاس سال تک زندہ رہے گا لیکن پھر 25 جون کی رات آئی اس سانس لینے میں مشکل پیش آئی اسکے ڈاکٹر نے ملک بھر سے سینئر ڈاکٹرز کو اس کی رہائش گاہ پر اکھٹا کر لیا یہ ڈاکٹر اس کو موت سے بچانے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے اور اسے ہسپتال لے گئے وہ شخص جس نے ایک سو پچاس سال زندہ رہنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی جو ننگے پاؤں زمین پر نہیں چلتا تھا جو کسی سے ہاتھ ملانے سے پہلے دستانے پہنتا تھا جس کے گھر میں روزانہ جراثیم کش ادویات چھڑکی جاتیں تھیں جس نے پچیس سال سے ایسی کوئی چیز نہیں کھائی تھی جس سے ڈاکٹرز نے اسے منع کر رکھا تھا وہ شخص پچاس کی عمر میں تیس منٹ کے اندر انتقال کر گیااس کی روح چٹکی کی طرح اس کے جسم سے پرواز کر گئی ۔
مائیکل جیکسن کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلاکہ اس کا جسم ڈھانچہ بن چکا تھا وہ سر سے گنجا تھا اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اس کے کندھے ،کولہے ،پسلیوں اور ٹانگوں پر سوئیوں کے بے تحاشا نشانات تھے وہ پلاسٹک سرجری کی وجہ یبین کلرز کا محتاج ہو چکا تھا وہ روزانہ درجنوں انجکشن لگواتا تھا لیکن یہ انجکشنز ، یہ احتیاط اورڈاکٹرز بھی اسے موت سے نہ بچا سکے- اگرچہ اللہ ہی ہے جو زندگی عطا کرے ورنہ ہم موت کو دھوکہ نہیں دے سکتے-