حد سے زیادہ تمنّائیں
انسان کو اندھا کر دیتی ہیں
سچ ہے کہ حد سے زیادہ تمنّائیں انسان کو اندھا کر دیتی ہیں- اگر ہم سے کوئی یہ پوچھے کہ ’’زندگی میں وہ کیا چیز ہے جسے پانے یا حاصل کرنے کی ہم سب سے زیادہ خواہش رکھتے ہیں‘‘ تو کچھ نمایاں جوابات ہوں گے۔ عزّت، دولت، مرتبہ، شہرت، سکونِ قلب، وقار، اطمینان، علم، شعور، آگہی، آسائش، آرام، یہ وہ بنیادی زمرّے ہیں جن کی وسعت میں وہ تمام چیزیں سما جاتی ہیں جو ہماری خواہشات میں شامل ہیں۔
تمناٌوں کی حدیں ہر انسان میں مختلف ہوتیں ہیں- خواہش، طلب، آرزو، چاہت، یہ وہ چند الفاظ ہیں جن سے ہماری زندگی کبھی خالی نہیں ہوتی- کبھی یہ صرف ضرورت بن جاتی ہے اور کبھی جنون – اسکی ابتداء اور انتہا ہر ایک کےلیے مختلف ہیں- حقیقت یہ کہ انسان کا خواہش کے ساتھ تعلق تب سے ہے جب وہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے اور کبی ختم بھی نہیں ہوگا-
جوں جوں زندگی میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں آرزوؤں اور تمناؤں میں بھی تبدیلیاں آتی جاتی ہیں۔خواہشیں اور تمناٌئیں اتنی زیادہ بھی نہ ہوں اور نا ان کے غلام بن جانا چاہیے کہ ہم اندھے ہو کر اپنی زندگی کے اصل مقصد کہ بھول جائیں- خواہشوں کا سفر دراصل خود شناسی سے شروع ہوتا ہے اور اگر اسے احتیاط اور ضبط کی لگامیں نہ ڈالی جائیں تو یہ خود پرستی کی اس انتہاء تک پہنچ جاتا ہے-
انسان پرخواہشات کی حکومت بہت ہی مستحکم ہوتی ہے لیکن عقل کے اندر ان خواہشات کو کنٹرول کرنے اور انہیں صحیح رخ پرلانے کی مکمل صلاحیت اورقدرت پائی جاتی ہے۔بشرطیکہ انسان خواہشات پر عقل کو فوقیت دے اور اپنے معاملات زندگی کی باگ ڈورعقل کے حوالہ کردے۔
خواہش اور نیت میں بڑی مماثلت ہے نیت نیک ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے ثواب بھی ملتاہے، صلہ بھی – صلہ تو اسی دنیا میں ترقی و خوشحالی کی صورت میں مل سکتا ہے ثواب آخرت میں اور انسان کو ان دونوں چیزوں کی اشد ضرورت ہے- خواہش بڑی ظالم چیزہے۔ خواہشیں انسان کو رسوائی بھی دے سکتی ہیں۔ محبت بھی نفرت بھی ۔خواہشیں مقدر بدل بھی سکتی ہیں خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں-