لوگ چائے کی تھیلیوں کی طرح ہوتے ہیں
جنہیں کھولتے ہوئے پانی میں ڈالے بغیر
پتا نہیں چلتا کہ اُنکا اصل رنگ کیا ہے
“لوگ چائے کی تھیلیوں کی طرح ہوتے ہیں جنہیں کھولتے ہوئے پانی میں ڈالے بغیر پتا نہیں چلتا کہ اُنکا اصل رنگ کیا ہے” خلیل جبران نے بالکل صحیح لکھا- کھولتے ہوئے پانی سے مراد برے حالات- یعنی لوگوں کی اصلیت برے حالات میں ہی پتہ لگتی ہے- اچھے وقت میں تو سب اچھے ہی ہوتے ہیں- جب تک ہم لوگوں کی امیدوں پہ پورا اترتے ہیں اور ان کے کام آتے رہیں تب تک ہم ان کے لئے اچھے ہوتے ہیں-
حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن جناب رسول اللہؐ نے فرمایا اَلا اُخبرکم بخیارکم کہ کیا میں تمہیں تمہارے اچھے لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ضرور آگاہ فرمائیں۔ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا الذین اذا رأوا ذکر اللّٰہ وہ لوگ جنہیں دیکھا جائے تو خدا یاد آجائے۔ یعنی جن لوگوں کو دیکھ کر خدا یاد آئے وہ تم میں سے اچھے لوگ ہیں۔ ان کے نیک اعمال ان کے چہروں پر حسن کی صورت میں نظر آرہے ہیں اور برے اعمال چہروں پر بد صورتی کے طور پر نمایاں ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے نیک اور مخلص بندوں کے چہروں پر ان کے خلوص اور نیک اعمال کا نور ہوتا ہے اور ان کے بارونق اور نورانی چہروں کو دیکھ کر خدا کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
پھر فرمایا ألا أخبرکم بشرارکم؟ کیا میں تمہیں تمہارے برے لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا بلٰی یا رسول اللّٰہ! ضرور بیان فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا المشاؤون بالنمیمۃ، المفسدون بین الأحبۃ، الباغون البراء العنت۔ آپؐ نے تین باتوں کا ذکر فرمایا۔
ایک یہ کہ المشاؤون بالنمیمۃ چغلیاں کھانے والے یعنی ایک دوسرے کی چغلی کرنے والے لوگ۔ چغلی کہتے ہیں ایک دوسرے کو خواہ مخواہ ان کی باتیں پہنچانے والے۔ ایک کی بات دوسرے کے آگے، دوسرے کی تیسرے کے آگے اور تیسرے کی بات چوتھے کے آگے۔
دوسری بات فرمائی المفسدون بین الأحبۃ کہ دوستوں کے درمیان فساد ڈالنے والے برے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک معاشرتی بیماری ہے کہ چند دوست اکٹھے محبت و اعتماد کے ساتھ رہ رہے ہیں، اگر کوئی آدمی ان کے درمیان غلط فہمیاں ڈال کر ان کی دوستی کو دشمنی میں بدل دیتا ہے- اسی طرح ایک خاندان محبت و اعتماد کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے اور کوئی شخص دخل دے کر ان کی محبت و اعتماد کی فضا کو خراب کر دیتا ہے –
تیسری بات حضورؐ نے فرمائی کہ الباغون البراء العنت شریف اور باعزت لوگوں میں عیب تلاش کر کے انہیں بدنام کرنے والے بھی برے لوگ ہوتے ہیں۔ عیب اور کمزوری سے کوئی شخص پاک نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے ساتھ اکثر لوگوں کا پردہ رکھتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہمارا حلقہُ احباب نیک اور اچھے لوگوں میں ہو وہ لوگ جن کے اعمال و حرکات، ان کا اٹھنا بیٹھنا، لین دین، عبادات و معمولات اور اخلاق و معاملات اللہ تعالیٰ اور رسولؐ خدا کے احکام کے مطابق ہوں- انہیں دیکھ کر ایک مسلمان کی عملی زندگی کا نقشہ سامنے آئے-