صدیاں ہیں کے گزرے ہی چلی جاتی ہیں
لمحے ہیں کہ اک عمر سے چپ چاپ کھڑے ہیں
معاشرے میں پیدا ہونے والی بے چینی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اس کے عوامل ہو سکتے ہیں۔ امیر ہو یا غریب کوئی بھی اس سے بچا ہوا نہیں ہے کسی کو اولاد نہ ہونے کی پریشانی تو کسی کو اولاد کے نا فرمان ہونے کی پریشانی کسی کو روزگار کی پریشانی کسی کو دولت نہ ہونے کی پریشانی تو کسی کو دولت کے لٹ جانے کی پریشانی انسان کرے بھی تو کیا کرے۔
انسان کو زندگی سے ہر طرح کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہتا ہے ۔اپنے حالات میں الجھا رہتا ہے کبھی سنور جاتے ہیں کبھی بگڑ جاتے ہیں اسی خوشی اور غمی کے اتار چڑہاوُ میں زندگی کٹ جاتی ہے اور وقت کا احساس نہیں ہوتا- ہر انسان کی زندگی میں ایسا ہی چل رہا ہے کویُ خوش ہے تو کویُ نا خوش- وقت بھی گزرے جا رہا ہے اور وقت کے ساتھ انسان آ بھی رہے اور جا بھی رہے-
زندگی کے ان لمحوں میں ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے- صبر اور شکر ایمان کا حصہ ہیں- زندگی نے تو ہر حال میں گزر ہی جانا ہے- کیوں نہ اسکو بہترین بنانے کے لیے صبر وشکر سے کام لیے جائیں- سکون اور اطمینان صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی میں ہے-
ایک حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی انسان میری طرف چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر آتا ہوں اور جب کوئی دوڑ کر آتا ہے تو میں لپک کر آتا ہوں اور ایک وقت آتا ہے کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کام کرتا ہے میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔